نئی دہلی۔ایک ایسا اقدام جس کی وجہہ سے ہندوستان کے ساتھ تعلقات ختم ہوسکتے ہیں‘ سعودی عربیہ نے اس بات پررضامندی ظاہر کی کہ وہ ایک خصوصی خارجی وزرا کی آرگنائزیشن برائے اسلامک کواپریشن(اوائی سی) میں اجلاس منعقد کریں گے جو کشمیر سے منسوب ہوگا‘ جس کے بعد اس نے پچھلے ہفتہ ملیشیاء میں ہوئے ایک اسلامک اجلاس سے دستبرداری کے لئے پاکستان کو راضی کیاہے۔
جاریہ سال کے اسی ہفتہ میں سعودی عربیہ کے خارجی وزیر فیصل بن فرحان السعود کے اسلام آباد دورے کے موقع پر مملکت کی جانب سے مبینہ طور پر حکومت پاکستان کو اس بات کا اشارہ مل گیاتھا۔
ملیشیائی وزیراعظم مہاتر محمد کی نگرانی میں کوالالمپور میں اسلامی مسائل پر منعقد ہونے والے اجلاس سے سعودی عربیہ کی عدم شرکت کے اعلان کے بعد وزیراعظم عمران خان کو میٹنگ میں شرکت سے روکنے کے لئے معاوضہ کے طور پر یہ اس کو مرعات مانا جارہا ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردغان اور مہاتر کے ساتھ کے یل سمٹ کے پس پردہ اہم چال بدلنے والے پاکستان نے مسلم دنیا کومشتعل کرنے والے مسائل پر تبادلہ خیال کے لئے اجلاس سے خود کو دورکرلیا تھا۔
ایرانی صدر حسن رحانی نے اجلاس میں شرکت کی جو سعودی عرب کے لئے تکلیف دہ بات تھی۔
وہیں مذکورہ خارجی وزرا ء کے اجلاس کی تورایخ کو قطعیت نہیں دی گئی ہے اور سعودی عربیہ بھی اس حقیقت سے واقف ہے کہ اجلاس کے رضامندی نئی دہلی کے لئے منفی سونچ کا سبب بن سکتی ہے‘ جس کے مملکت کے ساتھ بڑے پیمانے پر کاروباری تعلقات کو فروغ ملا ہے
۔پاکستان کا یہ احساس ہے کہ اسلامک ورلڈ بالخصوص او ائی سی ہندوستان کے 5اگست کے فیصلے کے بعد سے اس کی موثر انداز میں مدد نہیں کررہاہے۔
ہندوستان کے ساتھ جدید خارجی پالیسیوں میں سعودی عربیہ اور یواے ای ستون کے ساتھ کھڑے ہیں‘ اسلامی دنیا میں جو جموں اور کشمیر کے خصوصی موقف کو برخواست کرنے جیسے فیصلوں میں سفارتی تعلقات کو روکنے میں خصوصی حیثیت رکھتے ہیں۔
ہندوستان کے خارجی وزیر جئے شنکر نے تہران میں 2+2کے حوالے سے امریکی تعلقات کو بحال رکھتے ہوئے اپنے دوروزے دورے کے موقع پر ایران کے ذمہ داران سے ملاقات کی ہے