پروں کو کھول زمانہ اڑان دیکھتا ہے

,

   

کشمیر … نئی حدبندی ۔مسلم اکثریتی موقف خطرہ میں
امیت شاہ … شہریت ترمیمی قانون ۔ ہندوتوا ایجنڈہ کا غلبہ

رشیدالدین
سنگھ پریوار کو ہندو راشٹرا کی تشکیل میں بڑی عجلت ہے ۔ ملک بھر میں الگ الگ انداز میں زعفرانی ایجنڈہ پر عمل آوری جاری ہے۔ کہیں راست طور پر حکومت ایجنڈہ پر عمل پیرا ہے تو دوسرے علاقوں میں زعفرانی بریگیڈ کو متحرک کردیا گیا ہے۔ ملک میں امن و امان ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور رواداری کی جگہ بدامنی ، فرقہ واریت اور عدم رواداری کیوں نہ پھیل جائے لیکن بی جے پی کو صرف مقصد کی تکمیل سے مطلب ہے۔ کشمیر سے کنیا کماری تک بے چینی کا ماحول پیدا کردیا گیا ۔ 2014 ء میں مرکز میں برسر اقتدار آنے کے بعد سے وقفہ وقفہ سے ایجنڈہ کے امور کو بے نقاب کیا گیا لیکن 2024 ء عام انتخابات کو ٹارگٹ رکھتے ہوئے روزانہ نت نئے مسائل پیش کرتے ہوئے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ ایک ہی دن میں مرکزی حکومت کی جانب سے دو اہم فیصلے کئے گئے۔ جموں و کشمیر کے اسمبلی حلقہ جات کی از سر نو حد بندی کرنے والے کمیشن نے اپنی رپورٹ مرکز کو پیش کرتے ہوئے ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کا موقف ختم کرنے کی سازش کی ہے۔ دوسری طرف مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ملک میں متنازعہ شہریت ترمیمی قانون پر عنقریب عمل آوری کا اعلان کیا ۔ راجستھان اور مدھیہ پردیش میں فرقہ وارانہ فسادات کی آگ ابھی بجھی نہیں ہے۔ مہاراشٹرا اور کرناٹک میں مساجد کے لاؤڈ اسپیکرس ہٹانے کی مہم عروج پر ہے۔ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں یکساں سیول کوڈ کے حق میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ ایک ہنگامۂ محشر ہو تو اس کو بھولوں، سینکڑوں باتوں کا رہ رہ کے خیال آتا ہے۔ ملک کی تقسیم کے وقت کشمیر کے مسلمانوں کو ہندوستان کے ساتھ جوڑے رکھنے کیلئے خصوصی مراعات کی پیشکش کی گئی تھی ۔ یہ مراعات ہندوستانی حکومت کی جانب سے کوئی احسان نہیں بلکہ اختیار رکھنے کے باوجود ہندوستان کو وطن قبول کرنے پر جذبۂ خیر سگالی کے تحت دفعہ 370 خصوصی موقف دیا گیا۔ سنگھ پریوار اور آر ایس ایس کی آنکھوں میں ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کھٹک رہی تھی ۔ بی جے پی نے کشمیر میں قدم جمانے کے لئے محبوبہ مفتی کی پارٹی پی ڈی پی کے ساتھ مخلوط حکومت قائم کی۔ حکومت کے دوران نظم و نسق میں زعفرانی عناصر کو بھردیا گیا ۔ آخرکار 5 اگست 2019 ء کو پارلیمنٹ کے ذریعہ کشمیر کے خصوصی موقف یعنی دفعہ 370 کو ختم کردیا گیا۔ ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرتے ہوئے مسلم اکثریتی ریاست کے خلاف سازش کا آغاز ہوا۔ خصوصی موقف کی برخواستگی کے بعد پنڈتوں کی واپسی اور اکثریتی طبقہ کو بسانے کی مہم چلائی گئی۔ کشمیریوں سے الیکشن کا وعدہ کیا گیا تھا تاکہ وہ اپنے پسند کے نمائندوں کو منتخب کرسکیں۔ کشمیر کی سیاسی اور عوامی قیادت کو کمزور کرنے کے بعد اسمبلی حلقوں کی از سر نو حدبندی کا فیصلہ کرتے ہوئے کمیشن قائم کیا گیا۔ کمیشن نے رہی سہی کثر ختم کرتے ہوئے کشمیر کے اسمبلی حلقہ جات کو مسلم کے بجائے ہندو اکثریتی حلقوں میں تبدیل کرتے ہوئے بی جے پی کی کامیابی کا راستہ ہموار کردیا ہے ۔ جملہ 90 اسمبلی حلقوں میں کشمیر کیلئے 47 اور جموں کے لئے 43 حلقے مختص کئے گئے ۔ درج فہرست قبائل کے لئے 9 حلقے محفوظ کئے گئے ہیں۔ کشمیر کی سیاسی اور عوامی قیادت نے اسمبلی حلقوں کی از سر نو حدبندی کے بارے میں جن شبہات کا اظہار کیا تھا ، وہ درست ثابت ہوئے ہیں۔ کشمیریوں کا قصور کیا ہے کہ انہیں یہ سزا دی گئی۔ ہندوستان سے وفاداری کا کیا یہی صلہ ہے کہ ان کی تہذیب ، شناخت اور تشخص کو ختم کردیا جائے۔ دستور میں دی گئی مراعات کا مقصد کشمیریوں کی دلجوئی اور ترقی کی راہ ہموار کرنا تھا لیکن مودی حکومت نے آر ایس ایس کے ایجنڈہ پر عمل کیا۔ دفعہ 370 کی برخواستگی کے بعد اسمبلی حلقوں کی حدبندی دراصل کشمیریوں کی سیاسی مسلم کشی ہے۔ پہلے کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا اور اب اسمبلی نشستوں پر غلبہ ختم کردیا گیا۔ 370 کی برخواستگی کو اگست میں تین سال مکمل ہوجائیں گے لیکن کشمیریوں کے حق کے لئے کوئی ٹھوس آواز نہیں اٹھی۔ انصاف کیلئے آخر کشمیری جائیں تو جائیں کہاں۔ دستور اور قانون کی محافظ عدلیہ نے بھی تاحال سماعت کا آغاز نہیں کیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ دفعہ 370 کی برخواستگی پر جلد سماعت کرے گا۔ ایک ریاست کو دستوری حق سے محروم کردیا گیا ، اس سے زیادہ اہمیت کا مسئلہ اور کیا ہوگا۔ کشمیریوں کے حقوق کی جدوجہد میں دیگر ابنائے وطن کی بے حسی سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کشمیر ہندوستان کا حصہ نہیں ہے ۔ ملک کے لئے کشمیریوں کی قربانیوں کا اعتراف کب ہوگا اور انہیں انصاف کب ملے گا۔ نریندر مودی نے زخموں پر مرہم رکھنے کی بات کہی تھی لیکن مرکزی حکومت کے اقدامات مرہم کے بجائے زخموں پر نمک چھڑکنے کی طرح ہیں۔ کشمیریت ، جمہوریت اور انسانیت کا نعرہ اب سنائی کیوں نہیں دیتا ۔ کشمیریت کو تار تار کردیا گیا اور کشمیریوں کے ساتھ رویہ جمہوریت اور انسانیت کے مطابق نہیں ہے۔ مودی نے گولی کے بجائے میٹھی بولی کا وعدہ کیا تھا لیکن کشمیری قیادت سے آج تک مشاورت نہیں کی گئی۔ کشمیریوں کے دلوں کو ہندوستان کے ساتھ جوڑے رکھنا ہو تو 370 اور ریاست کا درجہ بحال کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔
ملک میں ہنگامہ اور نفرت کی مہم کے دوران امیت شاہ نے مغربی بنگال کے دورہ کے موقع پر اعلان کیا کہ شہریت ترمیمی قانون کے نفاذ سے حکومت ہرگز پیچھے نہیں ہٹے گی۔ ملک میں کورونا کیسس میں کمی کے بعد اس قانون پر عمل کیا جائے گا۔ مرکزی وزیر داخلہ کی زبان پر ہندوتوا ایجنڈہ پہلی مرتبہ نہیں ہے۔ انہوں نے جان بوجھ کر مغربی بنگال میں یہ اعلان کرتے ہوئے بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کو دھمکانے کی کوشش کی ہے۔ مغربی بنگال میں فرقہ وارانہ ایجنڈہ پر عمل آوری کے باوجود عوام نے ممتا بنرجی کا ساتھ دیا تھا۔ شہریت ترمیمی قانون کا مقصد مسلمانوں کی ہندوستانی شہریت پر شبہات پیدا کرنا اور فہرست رائے دہندگان سے ناموں کو حذف کرنا ہے۔ امیت شاہ ملک کی تاریخ کو نہ بھولیں اور مسلمانوں کے صبر اور خاموشی کو کمزوری نہ سمجھیں۔ ہر دور میں جب کبھی ظلم میں اضافہ ہوا ظالم طاقتوں کی سرکوبی کے لئے محمد بن قاسم ، محمود غزنوی اور محمد غوری کی شکل میں کوئی نہ کوئی ابھرتا رہا۔ ظلم چاہے کسی حکومت کا ہو، وہ باقی نہیں رہ سکتا۔ ملک میں نفرت کے ایجنڈہ کے تحت اذان پر پابندی عائد کرنے کی سازش تیار کی جارہی ہے ۔ لاؤڈ اسپیکرس ہٹانے کا مقصد دراصل مسلمانوں کے حوصلوں کو پست کرنا ہے تاکہ آگے چل کر باقاعدہ اذان پر پابندی کیلئے راضی کیا جائے۔ مہاراشٹرا اور کرناٹک میں مساجد کے لاڈو اسپیکرس کے خلاف مہم میں شدت پیدا کردی گئی جبکہ اتر پردیش کی یوگی ادتیہ ناتھ حکومت نے مساجد سے لاؤڈ اسپیکرس ہٹانے کا کام شروع کردیا ہے۔ اگر لاؤڈ اسپیکرس پر اذان روک دی گئی تو وہ دن دور نہیں جب مساجد میں نماز پر اعتراض کرتے ہوئے گھروں میں نماز ادا کرنے کے لئے مجبورکیا جائے گا۔ مسلمان آخر کب تک اپنے قدم پیچھے ہٹاتے رہیں گے۔ ہر معاملہ میں صبر اور برداشت کی پالیسی مستقبل میں سنگین پابندیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ شریعت میں مداخلت کو ہم نے ہضم کرلیا ۔ بابری مسجد ہم سے چھین کر رام مندر تعمیر کردی گئی اور اب مساجد سے اذان کی آواز برداشت نہیں ہے۔ اذان دراصل حق کی طرف انسانیت کو دعوت ہے۔ اذان کے بارے میں مسلمانوں نے غیر مسلم ابنائے وطن کو واقف نہیں کرایا جس کے نتیجہ میں بھولے بھالے ہندو بھی فرقہ پرستوں کے پروپگنڈہ کا شکار ہورہے ہیں۔ مہاراشٹرا میں عوام کے مسترد کردہ راج ٹھاکرے کو بی جے پی نے آگے کردیا ہے ۔ راج ٹھاکرے کو صرف مساجد کے لاؤڈ اسپیکرس پر اعتراض ہے ، حالانکہ دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں پر بھی لاؤڈ اسپیکرس موجود ہیں۔ سیاسی بیروزگار راج ٹھاکرے کو عوام میں آنے کیلئے ایک ایجنڈہ حاصل ہوچکا ہے۔ وہ عوام کے مسترد کردہ ہیں لیکن بی جے پی کی بیساکھی پر دوبارہ کھڑے ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے مسلمانوں کو صبرکی تلقین بے وقت کی راگنی کی طرح ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ جنگ اور امن کے اصول علحدہ ہوتے ہیں۔ ایسے وقت جبکہ شریعت اور شرعی احکام پر حملے کئے جارہے ہیں ، مسلمانوں کو دفاع کے بجائے صبر کی تلقین کرنا کہاں تک درست ہے۔ اگر کوئی حملہ آور ہو تو اسے روکنے کیلئے مزاحمت کرنی پڑے گی نہ کہ اخلاق کا درس دینے سے وہ واپس ہوجائے گا۔ اسلام اور ہندوستانی دستور دونوں نے ہر مظلوم کو دفاع اور مزاحمت کا حق دیا ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کو حالات کے مقابلہ کیلئے مسلمانوں کی جرأت اور حوصلہ کے ساتھ رہنمائی کرنی چاہئے۔ شکیل اعظمی نے کیا خوب ہے ؎
پروں کو کھول زمانہ اڑان دیکھتا ہے
زمیں پہ بیٹھ کر کیا آسمان دیکھتا ہے