پرکھنا مت پرکھنے میں کوئی اپنا نہیں رہتا

   

پانچ ریاستوں میں چناؤ … بنگال اور آسام توجہ کا مرکز
کانگریس کا ناراض گروپ … احسان مندی کے بجائے بغاوت

رشیدالدین
ملک کو پھر ایک بار منی جنرل الیکشن کا سامنا ہے ۔ پانچ ریاستی اسمبلیوں کا انتخابی بگل بجتے ہی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ یوں تو یہ اسمبلی انتخابات ہیں لیکن مغربی بنگال ، کیرالا اور آسام بی جے پی کے لئے وقار کا مسئلہ بن چکے ہیں۔ غیر بی جے پی ریاستوں میں اقتدار حاصل کرنے کا مشن مودی کس حد تک کامیاب رہے گا اس بارے میں تجزیہ نگاروں کی رائے منقسم ہے۔ پانچ ریاستوں میں صرف آسام بی جے پی زیر اقتدار ریاست ہے جبکہ باقی میں اپوزیشن کی حکومتیں ہیں۔ ٹاملناڈو میں بی جے پی اقتدار نہیں بلکہ نشستوں میں اضافہ چاہتی ہے۔ اسی لئے برسر اقتدار انا ڈی ایم کے سے اتحاد کیا گیا ۔ کیرالا میں بھی اقتدار کا خواب شائد ہی پورا ہو، لہذا بی جے پی کی ساری توجہ مغربی بنگال پر ہے۔ آسام میں دوبارہ اقتدار اور پڈوچیری میں کانگریس سے اقتدار چھیننے کا منصوبہ ہے۔ الیکشن شیڈول کی اجرائی کے ساتھ ہی بی جے پی خیمے میں خوشی کے بجائے غم کا ماحول پیدا ہوگیا۔ بنگال کی فکر بعد میں پہلے آسام میں حکومت کا بچانا آسان نہیں رہا۔ آسام کی اہم حلیف بوڈو لینڈ پیپلز فرنٹ نے بی جے پی کا ساتھ چھوڑ کر کانگریس کا ہاتھ تھام لیا ہے۔ اسی طرح پڈوچیری میں کانگریس حکومت کو زوال سے دوچار کرنے میں بی جے پی کی مدد کرنے والی پارٹی نے تنہا مقابلہ کا اعلان کرتے ہوئے بی جے پی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ سیاست میں کب کیا ہوجائے کہا نہیں جاسکتا ، لہذا تازہ ترین تبدیلیوں سے بی جے پی کی توجہ بنگال سے آسام میں حکومت بچانے پر مرکوز ہوچکی ہے۔ نریندر مودی اور امیت شاہ نے لاو لشکر کے ساتھ مغربی بنگال پر یلغار کردی لیکن مختلف سروے میں ممتا بنرجی کی دوبارہ کامیابی کی پیش قیاسی کی گئی ہے ۔ اگر آسام اور پڈوچیری کے حالات تبدیل نہ ہوتے تو بی جے پی بنگال میں ساری طاقت جھونک دیتی لیکن اب آسام میں حکومت کو بچانا کرو یا مرو کی جنگ میں تبدیل ہوچکا ہے۔ مودی کے پاس بھلے ہی کوئی کارنامہ نہ ہو لیکن تاریخ انہیں دو کارناموں سے ہمیشہ یاد رکھے گی ۔ چیف منسٹر گجرات کی حیثیت سے مورخ نریندر مودی کے نام کو تاریخ کا حصہ بناتے ہوئے گجرات میں ملک کی دوسری بڑی اکثریت اور سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کے قتل عام کا تذ کرہ ضرور کرے گا۔ اسی طرح وزیراعظم کی حیثیت سے کشمیر کے خصوصی موقف کی برخواستگی کے ذریعہ مسلم اکثریتی ریاست کو تقسیم کرنے والے شخص کے طور پر تاریخ میں نام درج ہوگا ۔ مودی اور ان کی ٹیم اچھی طرح جانتی ہے کہ انتخابات میں کامیابی کیلئے عوامی بھلائی کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے لیکن اپوزیشن کو کمزور کرنے پر توجہ مرکوز کردی گئی ۔ کانگریس اور ترنمول کے سکہ رائج الوقت قائدین کا استعمال کیا جارہا ہے ۔ انتخابی مقابلہ سے شکست دینے کی ہمت اور طاقت نہیں تو بکاؤ مال کے ذریعہ تخریبی سرگرمیوں کو ہوا دی جارہی ہے۔
ایسے وقت جبکہ کانگریس ملک میں بی جے پی کے متبادل کے طور پر ابھر رہی ہے اور عوام راہول اور پرینکا کی صورت میں نئی قیادت سے امیدیں وابستہ کر رہے ہیں ، پارٹی کے سینئر قائدین کے ایک گروہ نے اپنی منفی سرگرمیوں کے ذریعہ درپردہ بی جے پی کی مدد کرنے کی ٹھان لی ہے ۔ ناراض قائدین کے اس گروپ کو G-23 کا نام دیا گیا ہے لیکن اس میں شامل بعض قائدین نے گھر واپسی کرلی اور ناراض خیمے کے عزائم کو بھانپ لیا۔ پارٹی کے استحکام اور داخلی جمہوریت کی بحالی کے نام پر نہرو۔گاندھی خاندان کے سیاسی وارثین کو کمزور کرتے ہوئے ان کی سیاسی پیشقدمی کو روکنا چاہتے ہیں۔ مودی حکومت کے زیر اثر گودی میڈیا اس گروپ کو ایک بڑی طاقت کے طور پر پیش کرتے ہوئے کانگریس کیڈر میں الجھن پیدا کرنا چاہتا ہے۔ نہرو۔گاندھی خاندان یک مخالفت اور کسی غیر گاندھی کو صدارت پر فائز کرنے کی مہم کا مقصد صاف ہے کہ کسی طرح 2024 میں نریندر مودی کو تیسری مرتبہ کامیابی کی راہ ہموار کی جائے ۔ کانگریس کی تاریخ گواہ ہے کہ جب کبھی گاندھی خاندان سے ہٹ کر قیادت دی گئی پارٹی کمزور ہوئی ۔ سیتارام کیسری اس کی تازہ مثال ہے ۔ راجیو گاندھی کی موت کے بعد کانگریس کس طرح کمزور ہوئی اور بعد میں سونیا گاندھی نے قیادت کی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے اقتدار میں جس طرح واپسی کی ، عوام اچھی طرح جانتے ہیں۔ گاندھی خاندان کے بغیر کانگریس کا وجود اس لئے بھی ادھورا ہے کیونکہ اس خاندان کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ ملک کا کوئی سیاسی گھرانہ اس طرح کی قربانیوں کی مثال پیش نہیں کرسکتا ۔ 2004 ء میں اقتدار ملنے کے بعد سونیا گاندھی کے وزیراعظم بننے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی لیکن انہوں نے منموہن سنگھ کو آگے کردیا ۔ اقتدار کا لالچ ہوتا تو سونیا گاندھی 10 سال وزیراعظم کے عہدہ پر فائز رہتیں۔ G-23 گروپ سے وابستہ قائدین ہوسکتا ہے اپنے علاقہ تک مشہور ہوں لیکن کانگریس پارٹی کا لیبل نکال دیا جائے تو گوشہ گمنامی مقدر بن جائے گا۔ جو کچھ شناخت ، پہچان اور شہرت ہے ، وہ کانگریس پارٹی کی دین ہے ۔ ویسے بھی کئی سورما اور ناقابل تسخیر سمجھے جانے والے قائدین کانگریس سے علحدگی کے بعد سیاسی بیروزگار بن گئے اور کوئی پرسان حال نہیں رہا ۔ ان قائدین کو ’’ناراض‘‘ کہہ کر مخاطب کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ وہ اس لئے ناراض وہ ہوتا ہے جس سے ناانصافی ہو۔ پارٹی میں طویل خدمات کے باوجود صلہ نہ ملے تو ناراضگی کا حق حاصل ہوتا ہے۔ یہ خود ساختہ ناراض قائدین برسوں نہیں بلکہ کئی دہوں تک کرسی اور اقتدار کے مزے لوٹ چکے ہیں۔ جس خاندان کی وہ مخالفت کر رہے ہیں ، اس خاندان نے مسلسل 30 تا 40 برسوں تک اہم عہدوں سے سرفراز کیا ۔ اہلیت ، قابلیت اور صلاحیت سے زیادہ وفاداری کی بنیاد پر حکومت میں رہیں یا نہ رہیں ان قائدین کو عہدوں پر برقرار رکھا ۔ پارٹی کے نازک وقت میں استحکام کیلئے کام کرنے کے بجائے قیادت پر سوال اٹھانا دراصل ناراضگی نہیں بلکہ احسان فراموشی کے زمرہ میں آتا ہے ۔ 2004 ء سے 2014 ء تک جب اس قیادت نے مرکزی وزارت میں شامل کیا تھا، اس وقت قیادت کی صلاحیت پر سوال کیوں نہیں اٹھایا گیا ۔ عہدوں اور اقتدار کے لئے وفاداری کی گئی تو ایسی وفاداری محض ایک دھوکہ اور موقع پرستی کی بدترین مثال ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس گروپ کو مودی کی پہلی میعاد تک کانگریس قیادت پر بھروسہ تھا لیکن مودی کی دوسری میعاد کے آغاز کے ساتھ ہی تیور بدلنے لگے۔ ایسے وقت جبکہ ملک کو فرقہ پرستی سے نجات دلانے اور عام آدمی کی خوشحالی کیلئے ایک مضبوط متبادل کی ضرورت ہے اور راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی عوام کے درمیان پہنچ کر کانگریس پر اعتماد بحال کرنے میں مصروف ہیں۔ ایسے میں ساتھ دینے کے بجائے بغاوت کے سر بلند کرنا ظاہر ہے کسی کے اشارے پر ہی ہوسکتا ہے ۔ سینئر قائدین کو چاہئے تھا کہ نازک وقت پر اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے اور پارٹی کے احسانات کا بدلہ چکانے کا اس سے بہتر موقع نہیں ہوسکتا تھا ۔ پارٹی سے ہمدردی کے بجائے مودی کے آلۂ کار دکھائی دے رہے ہیں۔ پارٹی میں کمیاں اور خامیاں ہوں تو اسے دور کرنے کا طریقہ یہ نہیں کہ برسر عام قیادت کو نشانہ بنائیں۔ پارٹی فورم میں اصلاح کی بات کی جاسکتی ہے۔ جو باتیں ناراض گروپ کہہ رہا ہے، وہی بولی بی جے پی قائدین بول رہے ہیں۔ پارٹی اور اقتدار میں نوجوانوں کو بھی موقع ملنا چاہئے ۔ کب تک سینئرس کا غلبہ رہے گا۔ نوجوان قیادت کو تیار کرنے اور حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کی جارہی ہے۔ ہر پارٹی میں نیا خون جولانی کا سبب ہوتا ہے لیکن کانگریس کے ازکار رفتہ قائدین خود کو ابھی بھی جوان تصور کر رہے ہیں۔ ناراض سرگرمیوں کے باوجود سونیا گاندھی نے کوئی تادیبی کارروائی توکجا مخالفت میں بیان تک نہیں دیا۔ اس سے بڑھ کر فراخدلی کا مظاہرہ کیا ہوسکتا ہے۔ فرزند کی مخالفت کرنے والوں کو بھی برداشت کیا جارہا ہے ۔ پارٹی کے استحکام سے اتنی دلچسپی ہے تو یہ گروپ الیکشن والی ریاستوں کا دورہ کر کے انتخابی مہم میں حصہ کیوں نہیں لیتا ۔ کس نے انہیں روکا ہے ریاستوں کے دورے سے ۔ سینئر قائدین کو سیاست میں نو وارد پرینکا گاندھی سے سبق لینا چاہئے جو پارٹی کو بچانے میدان عمل میں آچکی ہیں۔ راہول اور پرینکا کی بڑھتی مقبولیت سے مودی خوفزدہ ہیں۔ کم از کم غلام نبی آزاد کو ناراض گروپ کی قیادت نہیں کرنی چاہئے تھی ، ان کی اس حرکت سے مسلمانوں پر احسان فروش کا لیبل لگ سکتا ہے۔ اندرا گاندھی ، راجیو گاندھی اور پھر منموہن سنگھ تک ہر حکومت میں اہم قلمدان کے وزیر رہے ۔ جموں و کشمیر کے چیف منسٹر کے عہدہ پر فائز کیا گیا اور پارٹی اپوزیشن میں رہنے کے باوجود راجیہ سبھا کی رکنیت کا سلسلہ جاری رہا ۔ مودی نے کشمیر کا خصوصی موقف ختم کردیا لیکن پارلیمنٹ اور اس کے باہر نریندر مودی کی قصیدہ خوانی کا کیا جواز ہے۔ عمر کے اس آخری حصہ میں غلام نبی آزاد کو یہ زیب نہیں دیتا کہ احسان کا بدلہ بغاوت سے دیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ’’احسان کا بدلہ صرف احسان ہی ہے‘‘۔ ڈاکٹر بشیر بدر کا یہ شعرکانگریس کی صورتحال پر صادق آتا ہے ؎
پرکھنا مت پرکھنے میں کوئی اپنا نہیں رہتا
کسی بھی آئینے میں دیر تک چہرہ نہیں رہتا