پرینکا کی زیر قیادت یو پی میں کانگریس سرگرم

,

   

انتخابات کی تیاریوں کا اشارہ‘ عوامی مسائل پر ناکامی کیلئے حکومت پر تنقید

لکھنؤ۔ اترپردیش میں تین دہائیوں سے زیادہ وقت سے اقتدار سے باہرکانگریس اس وقت جس طرح سے ریاستی حکومت پر لگاتار تنقید یںکررہی ہے اور ہر مسئلے پر سڑکوں پر اتررہی ہے اس سے احساس ہوتا ہے کہ آنے والے اسمبلی انتخابات میں کانگریس برسراقتدار بی جے پی کو سخت چیلنج دینے والی ہے ۔پٹرول ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے سلسلے میں کانگریس کے کارکنوں ضلعی سطح پر بھی سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں اور پیر کو راجدھانی لکھنؤ میں احتجاجی مظاہرہ کیا اور گرفتاری دی۔ ساتھ ہی سی اے اے اور این آر سی کے خلاف گذشتہ 19دسمبر کو ہوئے پرتشدد احتجاج کے ضمن میں اقلیتی سیل کے چیئر مین شہنواز عالم کی گرفتاری کے بعد پارٹی کے ریاستی اکائی کے صدر اجے کمار للو نے اپنی مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ودھان منڈل کی لیڈر آرادھنامشرا اور دیگر کارکنوں کے ساتھ دیر رات تھانے پہنچ گئے اور گرفتاری دی۔اس دوران کارکنوں کے ساتھ پولیس کی دھکا مکی بھی ہوئی۔پارٹی کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا کی قیات میں سال 2022 میں ہونے والے یو پی اسمبلی انتخابات کی تیاری میں پوری یکسوئی کے ساتھ لگی ہوئی ہے ۔اور ہر عوامی مسائل پر اپنا موقف رکھ کر حکومت پر تنقید کر کے وہ عوامی توجہ کو اپنی جانب مبذول کرارہی ہے ۔کانگریس عوامی مسائل پر تحریک نہ کرنے والی دوسری پارٹیوں کو بھی اپنی تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے ۔اقلیتی سیل کے چیئر مین کی گرفتاری پر پرینکا گاندھی واڈرا نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ پارٹی عوام کے مسائل کو اٹھاتی رہے گی۔ زیادتی کو ہتھیار بنا کر دوسری پارٹی کو تو روکا جاسکتا ہے لیکن کانگریس کو نہیں۔انہوں نے بلواسطہ طور سے بہوجن سماج پارٹی سربراہ مایاوتی پر بھی تنقید کی اور انہیں بھارتیہ جنتا پارٹی کا ترجمان تک بتا دیا۔ پرینکا گاندھی نے کہاکہ اپوزیشن کے کچھ لیڈر بی جے پی کے غیر اعلانیہ ترجمان بن گئے ہیں جس پر مایاوتی نے سخت احتجاج کیا اور کانگریس کو انتباہ دیا کہ وہ ایسا بولنے سے باز آئے ۔اور بی ایس پی ہمیشہ ملکی مفاد کے معاملے میں مرکزی حکومت کے ساتھ کھڑی رہی ہے ۔مرکز میں چاہے کانگریس کی حکومت رہی ہو یا بی جے پی کی۔
بی ایس پی کو اپنے تنقید کے دائرے میں لے کر کانگریس نے بھی دیگر اپوزیشن پارٹیوں کی طرح تنہاالیکشن لڑنے کا من بنا لیا ہے ۔سماج وادی پارٹی گذشتہ اسمبلی انتخابات کانگریس کے ساتھ لڑ کر تلخ تجربے سے دو چار ہے ۔جبکہ لوک سبھا انتخابات بی ایس پی کے ساتھ اتحاد بن کر لڑکر کافی خسارہ اٹھا چکی ہے ۔لوک سبھا 2014 کے انتخابات میں بی ایس پی کا کھاتہ بھی نہیں کھلا تھا لیکن اس بار ایس پی کے ساتھ الیکشن لڑ کر اس نے 10سیٹیں حاصل کرلی۔بحر کیف پرینکا گاندھی کے متحرک سیاست میں آنے اور یوپی کا انچارج وسکریٹری بنائے جانے کے بعد بے جان کانگریس میں جان پیدا ہوگئی ہے ۔اس وقت یوپی میں سب سے متحرک کانگریس پارٹی اور اس کے کارکنان ہی۔ لاک ڈاؤن کے درمیان مزدوروں کو ان کی منزل تک پہنچانے کے لئے کانگریس نے بسوں کی فراہمی کا دعوی کر کے یو پی حکومت کو جس طرح سے گھیرا تھا وہ اپنی مثال آپ ہے ۔سیاسی ماہرین کے مطابق پارٹی اگر اسی نہج پر جدوجہد کرتی رہی اور عوامی مسائل پر اسی طرح کا موقف اختیار کرتی رہی تو بعید نہیں کہ آنے والے الیکشن میں بی جے پی کو سخت چیلنج دینے میں کامیاب رہے ۔