پریکر ماکرنے سے کوئی جگہ مندر نہیں بن جاتی۔ (ممتاز عالم رضوی)

,

   

بابری مسجد-رام جنم بھومی ملکیت کے مقدمے میں 16 روزہ ہندو فریقین کی سماعت کے بعد اب مسلم فرقین کے جانب سے بحث کا آغاز کیا گیا اور مسلم فرقین کے جانب سے سنیئر وکیل ڈاکٹر راجیودہون نے مدلل بحث کا آغاز۔ سب سے پہلے ایڈوکیٹ سپریم کورٹ کپل سبل نے ڈاکٹر راجیودہون کو دی گئی دھمکی پر بات شروع کی جس پر عدالت عظمیٰ نے منگل اسکی سماعت کا فیصلہ کیا۔ اسکے بعد جمیعت علماء ہند، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بوڑڈ اور مسلم فرقین کے جانب سے ہندو فرقین کی بحث کاجواب دینا شروع کیا۔ جمیعت علماء ہند کی طرف سے موصولہ تفصیل کے مطابق بابری مسجد حق ملکیت مقدمہ میں پیر کو ہندو فرقین کے جانب سے 16 دنوں تک کی گئی بحث کا جواب دینے کےلیے سنیر وکیل ڈاکٹر راجیودہون پیش ہو ئے انہوں نے پانچ رکنی بینچ کو بتایا کہ 1934 میں مسجد توڑی گئی پھر 1949ء میں دراندازی کی گئی اور 1992 میں مسجد کو شہید کیا گیا اور آج عدالت میں کہا جارہا ہے کہ برطانیہ نے انکے ساتھ بے ایمانی کی تھی نیز برطانیہ کی وجہ سے انکے مندر کا انہدام ہوا اور اب استھا کی بنیاد پر متنازع اراضی پر اپنا قبضہ جمانا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر راجیودہون نے اپنی بحث میں کہا کہ پریکرما یعنی طواف کرنے سے کوئی جگہ مندر نہیں بن جاتی اور اس پر کوئی حق کا دعویٰ نہیں کرسکتا اور اگر ایسا ہے میں کل جا کر سول لائن پر پریکرما کرتا ہوں اور جسٹس بھوشن میرے ساتھ چلیں۔ راجیودہون نے عدالت کو مزید بتایا کہ فریق مخالف نے اپنی بحث میں اس معاملے کو ہندو قانون کی روشنی میں حل کرنے کی گزارش کی تھی لیکن اب جب میں مسلم قانون کی روشنی میں بات رکھنا چاہتا ہوں تو اعتراض کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر راجیودہون نے عدالت کو مزید بتایا کہ اس سے قبل جسٹس عبدالنظیر نے سوال پوچھا تھا کہ آیا وقف کرنے کے بعد پراپٹی اللہ کہ ہو جاتی ہے؟ اسکا جواب ہاں میں ہے کیونکہ کہ کوئی بھی جائداد وقف ہوجانے کے بعد اللہ کی ملکیت ہوتی ہے اور اسکے بعد متولی کا بھی حق صرف اتنا ہی رہتا ہے کہ اسکی دیکھ ریکھ کرسکتا ہے۔ اور اس بات کا خلاصہ سپریم کورٹ نے ماضی کے متعدد فیصلوں میں کیا ہے۔ ڈاکٹر دہون نے عدالت کو بتایا کہ فریق دیگر نے تاریخی کتابوں اور سیاحوں کے سفرناموں کو عدالت میں پیش کرکے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر تھا لیکن صرف والٹن ہیلٹن کے علاوہ کسی بھی مورخ نے اسکا ذکر نہیں کیا ہے۔اور کسی مورخ کا ذکر نہ کرنا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہاں مندر نہیں تھا، تاریخ کو جاننے کے لیے فن کی ضرورت ہوتی ہے۔