پکتیا میں اسکول کھولنے پر طالبات میں خوشی کی لہر

   

اسلام آباد ۔ دن کے 11 بجے تھے اور میں اپنے کمرے میں آرام کر رہی تھی کہ اچانک چھٹی جماعت کی طالبہ میری چھوٹی بہن کمرے میں آ کر میرے ساتھ لپٹ گئی اور خوشی سے بتایا کہ مبارک ہو بہن آپ کی دعا قبول ہو گئی ہے اور کل سے آپ اسکول جانے کی تیاری کریں۔ یہ کہنا ہے افغانستان کے صوبہ پکتیا کی رہائشی عابدہ کا جو ساتویں جماعت کی طالبہ ہیں۔ یاد رہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے ایک سال بعد صوبہ پکتیا کے بعض علاقوں میں گزشتہ ہفتہ لڑکیوں کے چند سیکنڈری اسکول دوبارہ کھول دیے گئے ہیں۔ اس سے قبل صرف چھٹی جماعت تک کی لڑکیاں ہی اسکول جا سکتی تھیں اور ساتویں سے بارہویں جماعت تک کی لڑکیوں کے اسکول بند تھے۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے عابدہ نے بتایا کہ یہ ایک سال ان پر کیسے گزرا وہ الفاظ میں بیان نہیں کر سکتیں۔ ایک ایک دن سال کی مانند گزرتا تھا، وہ بہت مشکل وقت تھا۔
عابدہ کے والد فضل الدین جلالزئی کا تعلق صوبہ پکتیا کے صدرمقام گردیز سے ہے۔ پیشے کے لحاظ سے وہ ایک تاجر ہیں۔ ان کی چار بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ بچوں کی پڑھائی میں کوئی تفریق نہیں کرتے۔
آنجہانی ملکہ ہمیشہ غیر متنازعہ رہیں
لندن۔ جب ملکہ الزبتھ دوم نے 1952 میں تخت سنبھالا تو تاجِ برطانیہ سے ایک ہیرا ہندوستان کی تقسیم کی صورت میں 5 برس قبل ہی الگ ہوا تھا۔ وہ ایسے وقت میں ملکہ بنیں جب برِصغیر تقسیمِ ہند کے بعد ہونے والی خون ریزی کے اثرات سے باہر نہیں نکل پایا تھا۔ ملکہ برطانیہ تقسیمِ ہند کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے دوروں پر آئیں اور برِ صغیر پر برطانوی راج کے دوران تلخ یادوں کے باوجود ملکہ کا بھرپور خیر مقدم کیا گیا۔ ملکہ کے جنوبی ایشیا کے دوروں کے عینی شاہدین کا کہناہے کہ ملکہ نے گرمجوشی اور لوگوں میں گھل مل جانے کے باعث برِ صغیر کے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی اور ماضی کی تلخ یادوں کے باوجود وہ آخری وقت تک غیر متنازعہ رہیں۔ ٹفٹس یونیورسٹی میں تاریخ کی پروفیسر عائشہ جلال نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ قابلِ ذکر ہے کہ ملکہ جنوبی ایشیا میں نوآبادیاتی نظام کی مخالف قوم پرستی کی گہری تاریخ کے باوجود متنازعہ شخصیت نہیں تھیں۔ وہ اس بات کا سہرا اچھی پی آر (عوامی تعلقات) کو قرار دیتی ہیں۔ ممتاز مصورہ اور ماہرِ تعلیم سلیمہ ہاشمی یاد کرتی ہیں کہ کس طرح ایک اسکول کی لڑکی کے طور پر لاہور میں ملکہ کے قافلہ کو دیکھ کر وہ ہاتھ ہلا رہی تھیں، یہ اس وقت کی بات ہے جب 1961 میں ملکہ نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ سلیمہ ہاشمی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ برسوں بعد لاہور میں نیشنل کالج آف آرٹس کی پرنسپل کے طور پر 1997 میں انہوں نے ملکہ کے دوسرے اور آخری دورہ پاکستان کے موقع پر میزبانی کی۔