پھر غریبوں کی جلائی گئی بستی شائد

,

   

بلڈوزر … صرف مسلمانوں کے خلاف کیوں ؟
جہانگیر پوری … ترکمان گیٹ کی یاد تازہ

رشیدالدین
’’ہر جرم کی سزا بلڈوزر‘‘ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں خاطیوں کو سزا دینے کا نیا طریقہ ایجاد کیا گیا۔ جرائم کیلئے قانون کے تحت سزا کا تعین کیا گیا ہے لیکن ان میں بلڈوزر سزا کا کوئی تذکرہ نہیں ۔ بی جے پی حکومتوں نے قانون کی پرواہ کئے بغیر سزا کا جو نیا طریقہ اختیار کیا ہے، ہوسکتا ہے قانونی ترمیم کے ذریعہ اسے مروجہ سزاؤں کی فہرست میں شامل کردیا جائے۔ بلڈوزر کے سفر کا آغاز اترپردیش سے ہوا اور مدھیہ پردیش سے گزر کر دہلی میں کیمپ کئے ہوئے ہے۔ کرناٹک کی بی جے پی حکومت نے بلڈوزر کو دورہ کی دعوت دی ہے۔ وہاں کے وزیر داخلہ نے کہا کہ فسادیوں کے خلاف بلڈوزر جیسی کارروائی زیر غور ہے۔ بی جے پی حکومتوں اور دہلی میں بی جے پی زیر کنٹرول میونسپل کارپوریشن کی کارروائیوں کے بعد بلڈوزر نے انتہائی کم عرصہ میں غیر معمولی مقبولیت حاصل کرلی ہے۔ بہتر ہوگا کہ بی جے پی کنول کی جگہ بلڈوزر کو انتخابی نشان کے طور پر اختیار کرلے۔ جب بلڈوزر ایک سزا ہے تو پھر ہر غلطی کرنے والے کے خلاف اسے چلنا چاہئے لیکن یہاں تو بلڈوزر صرف مسلمانوں کو سزا دینے کے لئے چلتا ہے ۔ غلطی اور جرم سرزد ہوا یا نہیں ، اس کا فیصلہ عدالت کرتی ہے لیکن جرم ثابت ہونے سے قبل ہی بی جے پی حکومتوں نے مسلمانوں کے خلاف بلڈوزر چلادیا۔ بلڈوزر سزا کا مقصد دراصل مسلمانوں کو بے گھر کرتے ہوئے بے سہارا اور بے آسرا کرنا ہے۔ ظلم کی طرح بلڈوزر کی دوڑ بھی کہیں نہ کہیں ختم ضرور ہوگی جب عوام اپنے ووٹ کے ذریعہ بی جے پی پر بلڈوزر چلائیں گے۔ دہلی کے جہانگیر پوری میں مسجد اور مکانات پر بلڈوزر کا چلنا اس لئے بھی مضحکہ خیز ہے کیونکہ اجازت کے بغیر نکالے گئے ہنومان جلوس میں تشدد کی سزا مسلمانوں کو دی گئی۔ حالانکہ بلڈوزر تو جلوسیوں کی املاک پر چلنا چاہئے تھا جنہوں نے غیر قانونی طریقہ سے جلوس نکالا ۔ حملہ کرنے والے کو نہیں بلکہ دفاع کرنے والوں کو سزا دی گئی۔ بی جے پی اور جارحانہ فرقہ پرست عناصر کو یہ برداشت نہیں ہوا کہ مسلمانوں نے جرأت اور حوصلہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھگوا دھاری حملہ آوروں کو فرار اختیار کرنے پر مجبور کردیا ورنہ راجستھان اور مدھیہ پردیش کی طرح املاک کو آگ کی نذر کردیا جاتا۔ پولیس نے غیر قانونی جلوس کے ذمہ داروں کے خلاف تو کارروائی نہیں کی لیکن میونسپل کارپوریشن کو اچانک غیر مجاز تعمیرات کا خیال آیا۔ دہلی میں کیا صرف مسلمانوں کی غیر مجاز تعمیرات ہیں ؟ دوسروں کے خلاف بلڈوزر کیوں نہیں چلتا ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ غیر مجاز تعمیرات تو محض ایک بہانہ ہے ، اصل نشانہ تو مسلمان ہیں۔ مسلم دشمنی کے جذبہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود جہانگیر پوری میں انہدامی کارروائی جاری رہی۔ نئی دہلی کئی ایک مسلم جماعتوں اور تنظیموں کا مرکز ہے۔ یہ وہی دہلی ہے جہاں کی جامع مسجد سے شاہی امام عبداللہ بخاری کی للکار سے حکومت خوف کھاتی تھی لیکن آج اسی دہلی میں مسلمان بے یار و مددگار ہوگئے ۔ جس وقت مکانات اور عبادت گاہ پر بلڈوزر چل رہا تھا ، کوئی مسلم قیادت مدد کیلئے نہیں پہنچی ۔ شاہی امام کے وارثین بے آواز ہوچکے ہیں اور کسی میں ہمت نہیں کہ کارروائی کو روک سکے ۔ قابل مبارکباد ہے کمیونسٹ رہنما برندا کرت جنہوں نے بلڈوزر کے آگے کھڑے ہوکر کہا کہ میری لاش پر سے گزرنا ہوگا۔ اگر برندا کرت بروقت نہ پہنچتیں تو پتہ نہیں مسلم آبادی کا حشر کیا ہوتا۔ انہدامی کارروائی کے خلاف سپریم کورٹ سے حکم التواء حاصل کرنے والے وکلاء کپل سبل اور پرشانت بھوشن ہیں۔ اس مرحلہ پر مسلمانوں میں قابل وکلاء کی کمی کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ ہندوستان میں آج بھی انصاف پسند اور رواداری کا جذبہ رکھنے والے دیگر ابنائے وطن کی کمی نہیں ہے۔ جمیعت علمائے ہند کی قیادت غنیمت ہے جس نے مسلمانوں کے حقوق کے لئے حکومت اور عدلیہ کی سطح پر جدوجہد کی ہے ۔ جہانگیر پوری میں بلڈوزر کے خلاف سپریم کورٹ کا حکم التواء جمیعت علمائے ہند نے حاصل کیا۔ کووڈ کے دوران مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دینے کی کوششوں کے خلاف قانونی جدوجہد جمیعت کا کارنامہ ہے۔ اترپردیش میں مسلمانوں پر مظالم ، حجاب اور حلال مسئلہ پر جمیعت علمائے ہند عدلیہ سے رجوع ہوچکی ہے۔ جو کام مسلمانوں کی سیاسی قیادت کو کرنا تھا ، وہ مذہبی تنظیم کر رہی ہے اور وہی علماء کا گروہ ہے جس نے جدوجہد آزادی میں عظیم قربانیاں دیں۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ صرف مذمتی بیانات تک محدود ہوچکا ہے اور حوصلہ مند قیادت کی کمی نے بورڈ کی نمائندہ حیثیت کو ختم کردیا۔
جہانگیر پوری واقعہ نے ترکمان گیٹ واقعہ کی یاد تازہ کردی ہے۔ ایمرجنسی کے دور میں 31 مئی 1976 ء کو دہلی میں ترکمان گیٹ علاقہ پر بلڈوزر چلائے گئے تھے جہاں مسلمانوں کی آبادی ہے۔ انہدام کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں پر فائرنگ کی گئی جس میں 10 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ سنجے گاندھی جو ناقابل تسخیر قائد کے طور پر ابھرے تھے، انہوں نے ترکمان گیٹ کے مسلمانوں پر بلڈوزر چلایا تھا لیکن قدرت نے جو انتقام لیا ، وہ دنیا کے سامنے ہے۔ مظلوم کی آہ کبھی خالی نہیں جاتی اورسنجے گاندھی کا جو انجام ہوا ہے وہ آج کے ظالموں کے لئے درس عبرت ہے۔ جہاں تک خاطیوں کے خلاف بلڈوزر چلانے کا معاملہ ہے ، اترپردیش میں کسانوں کو گاڑی سے کچلنے والے مرکزی وزیر کے فرزند کی قیامگاہ پر بلڈوزر کب چلے گا۔ سپریم کورٹ نے ملزم کی ضمانت کو منسوخ کرتے ہوئے یہ ثابت کردیا کہ مرکزی وزیر کا بیٹا حقیقی مجرم ہے ۔ بی جے پی کے کئی قائدین مختلف سنگین جرائم کے تحت اترپردیش کی جیلوں میں بند ہیں لیکن یوگی ادتیہ ناتھ کا بلڈوزر ان کے خلاف نہیں چلتا۔ عام آدمی پارٹی نے صحیح کہا ہے کہ ملک میں جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کے مظالم کو روکنا ہو تو بی جے پی ہیڈکوارٹر پر بلڈوزر چلانا ہوگا۔ دہلی میونسپل کارپوریشن کا دعویٰ ہے کہ جہانگیر پوری میں ناجائز قبضے اور تعمیرات غیر قانونی ہیں۔ اگر ناجائز قبضوں کی بات تسلیم کرلی جائے تو ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا ناجائز قبضہ 1948 ء میں بابری مسجد کے منبر پر مورتیوں کو نصب کرتے ہوئے کیا گیا تھا۔ بعد میں اس ناجائز قبضہ کو نہ صرف قانونی شکل دی گئی بلکہ تاریخی مسجد کو شہید کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی۔ معاملہ جب عدالت میں پہنچا تو سپریم کورٹ نے ناجائز قبضہ کی تائید کرتے ہوئے انصاف کی بنیاد پر نہیں بلکہ آستھا کی بنیاد پر مندر کے حق میں فیصلہ سنایا۔ سنگھ پریوار اگر مسجدوں کو مندر میں تبدیل کرنے کی کوشش کرے تو عدالت بھی آنکھیں بند کرلیتی ہے۔ اگر عدلیہ ثبوت اور گواہوں کے بجائے آستھا کی بنیاد پر فیصلہ سنانے لگے تو پھر ملک میں عدلیہ پر سے عوام کا اعتماد اٹھ جائے گا۔ موجودہ حالات میں گلے شکوے کرنے اور قیادتوں کا انتظار کئے بغیر مسلمانوں کو مقامی حالات کے اعتبار سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ مزاحمت اور دفاع واحد ہتھیار ہے جس کے ذریعہ جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کے حوصلوں کو پست کیا جاسکتا ہے۔ ہندوستان میں جہاں کہیں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جائے تو وہاں کی آبادی کو متحدہ طور پر دفاع کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ ہمیں دیگر ابنائے وطن سے بہتر تعلقات کو استوار رکھنا ہے کیونکہ ملک کی ہندو آبادی کی اکثریت امن پسند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں تک ہندو اکثریتی ہندوستان میں مسلم حکمرانوں نے حکومت کی ۔ امن پسند ہندوؤں کی مدد سے ہم اشرار کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ حالیہ عرصہ میں ایسی کئی مثالیں منظر عام پر آئیں جہاں ہندو علاقوں میں مسلمانوں اور مسلم علاقوں میں ہندو خاندانوں کو پناہ دی گئی ۔ ہندوستان کے خمیر میں محبت رواداری ہے، اسے متاثر کرنے کی سازش کو عوام کے اتحاد سے ناکام بنایا جاسکتا ہے۔ وشوا ہندو پریشد ، بجرنگ دل ، ہندو سینا اور کسی عنوان سے جارحانہ فرقہ پرست عناصر امن کو نقصان پہنچانا چاہیں تو ہمیں متحدہ طور پر مقابلہ کرنا ہوگا۔ ایسے وقت جبکہ ہندوستان کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کو بآسانی نشانہ بنایا جارہا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ مزاحمت کا جذبہ پیدا کیا جائے ۔ ہر شخص اپنی ہمت اور صلاحیت کے مطابق مقابلہ کرے اور فرار کے بجائے حملہ آور کے سامنے ڈٹ جائے۔ بلڈوزر جیسی کارروائیوں کو روکنے کیلئے مسلمانوں میں اتحاد اور جذبۂ حریت کی ضرورت ہے۔ صرف رونے دھونے یا بیوہ کی طرح آنسو بہانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ بزدل کا خدا بھی ساتھ نہیں دیتا۔ شہود آفاقی نے کچھ یوں تبصرہ کیا ہے ؎
پھر غریبوں کی جلائی گئی بستی شائد
رقص ہر سمت نظر آتا ہے دیوانوں کا