پھولن دیوی کا دشمن انتظار کرتے کرتے مر گیا

   

سیاست فیچر
راجہ رام سنگھ 1981 بہیمائی قتل عام کا اہم گواہ اور اس مقدمہ کا مدعی تھا اس کا حال ہی میں اپنے آبائی گاؤں بہیمائی ضلع کانپور میں طویل علالت کے بعد انتقال ہوگیا۔ وہ جگر کے امراض کہنہ میں مبتلا تھا اس کی عمر 85 سال تھی۔واضح رہے کہ 1981 میں ضلع کانپور کے ایک گاوں بیہائی میں 20 افراد بشمول 17 تھاکروں ایک مسلمان، ایک دلت اور او بی سی سے تعلق رکھنے والے ایک فرد کو قتل کیا گیا تھا۔ اُسی وجہ سے اس واقعہ کو بہیمائی قتل عام کہا جاتا ہے۔ یہ بات 14 افرادی 1981 کی ہے جب ڈاکووں کی رانی پھولن دیوی اور اس کی ٹولی نے ٹھاکروں کی جانب سے اس کے جنسی استحصال کا بدلہ لینے کے لئے یہ قتل عام کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ گاؤں کے ٹھاکروں نے پھولن دیوی کی عصمت ریزی کی تھی۔ پھولن دیوی اور اس کی ٹولی کے ہاتھوں مارے گئے لوگوں میں راجہ رام کے دو چھوٹے بھائی بنوری سنگھ، ہیمان سنگھ کے ساتھ ساتھ چچازاد بھائی نریش سنگھ، بھانجے دیو سنگھ، حکم سنگھ اور دسرتھ سنگھ بھی شامل تھے۔ جاریہ ماہ کے اوائل میں ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے راجہ رام سنگھ نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ بہیمائی قتل عام کیس کے ملزمین کو ان کے جرم کے لئے پھانسی پر لٹکایا جائے کیونکہ ملزمین نے بقول راجہ رام سنگھ کے اس کے خاندان کے بے گناہوں کو قتل کیا لیکن خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ مجھے انصاف مل پائے گا یا نہیں کیونکہ میں جگر کے امراض کہنہ سے متاثر ہوں۔ مجھے اس وقت ہی سکون ملے گا جب میری زندگی میں ہی قاتلوں کو سزا دی جائے گی۔

راجہ رام سنگھ قتل عام کا عینی گواہ اور کلیدی شکایت کنندہ تھا۔ اس نے اپنے انٹرویو میں بہیمائی قتل عام کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ 39 سال بعد بھی اس واقعہ کو یاد کرکے وہ کانپ جاتا ہے۔ بدن میں خوف کے مارے تھر تھراہٹ محسوس ہوتی ہے جس وقت قتل عام کا واقعہ پیش آیا تھا رام سنگھ کی عمر 45 سال تھی۔ اس نے بتایا تھا کہ گاؤں میں پہلی مرتبہ 20 نعشوں کی آخری رسومات انجام دی گئیں۔ راجہ رام سنگھ کے مطابق وہ ٹھاکر پیدا ہوا جو بہت بہادر کہے جاتے ہیں لیکن قتل عام کے دن وہ ڈر کے مارے کانپ رہا تھا اور گوبر کے ڈھیر میں چھپ کر اپنی جان بچائی تھی۔

راجہ رام سنگھ کے مطابق مان سنگھ، بلوان، شیوپال، متقیم، پھولن دیوی اور ان کے آدمی میرے بھائیوں کو جن میں سے بعض کی عمریں صرف 11، 12 اور 14 برس کی تھیں کھینچ کر لے جارہے تھے ان تمام کو گھٹنوں کے بل بیٹھاکر ایک ایک کرکے کو گولیاں مار دی گئیں۔ پھولن دیوی اور اس کے آدمیوں نے جملہ 26 لوگوں کو گولیاں ماری تھیں جن میں سے 20 لوگ ہلاک ہوئے کبھی بہیمائی گاؤں کو ٹھاکروں کا گاؤں کہا جاتا تھا لیکن چند گھنٹوں میں سارا گاؤں سوگوار ہوگیا اور ایک گھنٹے میں 17 کمسن خواتین بیوہ ہوگئیں۔ سب سے تکلیف دہ پہلو یہ تھا کہ ٹھاکروں کو ان تمام برسوں میں پھولن دیوی کی عصمت لوٹنے والوں کے طور پر پیش کیا گیا۔ راجہ رام سنگھ نے اس انٹرویو میں یہ بھی بتایا تھا کہ بہیمائی قتل عام کے بعد سارے علاقہ میں پھولن دیوی کا خوف پھیل گیا۔ لوگوں کے ذہنوں میں پھولن دیوی کا اس قدر خوف تھا کہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ ہر طرف اس کا خوف تھا۔ کیا ان حالات میں ہم جیسے بیوی بچوں والے لوگوں کے لئے یہ ممکن تھا کہ پھولن دیوی کا جنسی استحصال کرتے اور وہ بھی اپنی ماں بیٹیوں اور دادییوں، نانیوں کے سامنے، ہم پاگل نہیں ہم بھی معاشرہ کا ایک حصہ ہیں‘‘۔راجہ رام سنگھ نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی بتایا تھا کہ گزشتہ 39 برسوں میں کوئی دن ایسا نہیں گذرا جب ہم خوشی سے گذارے ہوں۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ اگر ایک ملزم کو واقعہ کے 10 ، 20 یا 30 برسوں بعد سزا دی جاتی ہے تو کیا یہ انصاف ہے؟ دوسری طرف راجہ رام سنگھ کا بیٹا رامکیش سنگھ جو پولیس ہوم گارڈ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہا ہے وہ کہتا ہے کہ اگرچہ میرے والد بوڑھے اور بیمار ہیں وہ باقاعدہ عدالت جاتے ہیں اور کبھی بھی سماعت سے غیر حاضر نہیں رہتے اور ہمارے خاندان کے لئے یہ بڑی تکلیف دہ بات ہے کہ ان کی زندگی میں قاتلوں کو سزا نہیں مل پا رہی ہے۔