پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا نیوزی لینڈدہشت گرد حملہ کے تناظرمیں

   

نیوزی لینڈ کے شہرکرائسٹ چرچ کی دومساجد،مسجدالنور اورلن ووڈایونیومسجد میں ۱۵؍مارچ ۲۰۱۹؁ء قبل ازنمازجمعہ آسٹریلیائی دہشت گردنے اندھادھند فائرنگ کی جس کے نتیجہ میں تقریبا ۵۰؍نمازی شہیدہوگئے،اس دہشت گردانہ حملہ کی جوتفصیلات پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا کے ذریعہ سامنے آئی ہیں وہ خون کے آنسورلانے والی ہیں،جس بے رحمانہ وسفاکانہ اندازسے دہشت گردانہ کاروائی کی گئی ہے اس کی مذمت کیلئے الفاظ نا کافی ہیں۔ شخص واحد اس قسم کی قاتلانہ کاروائی کی منصوبہ بندی کرکے اس کوعملی جامہ نہیں پہناسکتا، ظاہرہے اس کے پیچھے وہی صلیبی طاقتیں ہوسکتی ہیں جوہمیشہ اسلام کے خلاف زہراگلتی رہی ہیں اورایمان والوں کا خون بہاتی رہی ہیں،دنیا بھرکے ذرائع ابلاغ اورانسانیت کی دہائی دینے والی قدآورشخصیات کی جانب سے اس دہشت گردانہ کاروائی کودہشت گردی قراردینے کے بجائے ’’شوٹنگ اورگن مین تشدد‘‘Shooting, Violence, Mass Firing incident جیسے الفاظ کا سہارا لیکراس متشددانہ ومتنفرانہ حملہ کوہلکے سے ہلکہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ خدانخواستہ اس کاروائی میں فرضی یا نام نہادمسلمان کا نام آجاتاتوپوری دنیا میں قیامت خیزہنگامہ برپاہوجاتا اورہمیشہ کی طرح اس کاروائی کواسلامی دہشت گردی کا نام دیکرزہرافشانی کی جاتی، بعض گوشوں سے اس شخص کوذہنی مریض قراردینے کی غیرمعقول منطق دہرائی جارہی ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ کوئی ذہنی مریض ہوتواس کوکیسے سجھائی دیا کہ یہ جمعہ کا دن ہے اورمسلمان مسجدمیں بکثرت جمع ہوتے ہیںاس لئے اس موقع پروہ بھی نمازیوں پرگولیوں کی بوچھاڑکی جائے؟کیا کوئی ذہنی مریض جدیداسلحہ کے استعمال کے قابل ہوسکتاہے؟کیا کسی ذہنی مریض کے دماغ میں یہ منصوبہ تیارہوسکتاہے کہ وہ اپنے سرپرکیمرہ لگاکراس کی فلم بندی کرے اوراس کو نشربھی کرے ؟یہ بات بھی قابل غورہے کہ حملہ آورکی بندوق اوراس کی بلٹ پروف جاکیٹ پرایسے جنگجوئوں کے نام لکھے ہوئے تھے جو سب کے سب اسلام دشمن تھے،نیوزی لینڈ میں ہوئے دہشت گردانہ انتہاء پسندواقعہ کے بعدبرطانیہ کے دارالحکومت لندن کے مشرقی علاقے میں واقع مسجدکے باہر’’ہتھوڑا‘‘بردارگروپ نے نمازیوں کونشانہ بنانے کی کوشش کی۔ایک شخص کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے،ہتھوڑابرداراسلام مخالف نعرے لگارہے تھے۔الغرض ۱۱؍۹دہشت گردانہ حملہ کے بعداسلام اور مسلمانوں کے خلاف جونفرت انگیز پروپیگنڈہ جاری رکھاگیا ہے نیوزی لینڈکا یہ دہشت گردانہ حملہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے،چنانچہ ترکی کے ہردلعزیزصدررجب طیب اردغان نے اس غیرانسانی حملہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے اسلام کے تئیں بڑھتی دشمنی کا اظہارہوتاہے جسے دنیا خاموشی سے دیکھ رہی ہے،آٹومیٹک گن سے غیرانسانی اوربزدلانہ حملہ کے اس تاریک واقعہ کے ضمن میں نیوزی لینڈ کے وزیراعظم جیسنڈا ارڈیرن کا مذمتی بیان ایک ایسی امیدکی کرن ہے جس سے انسانیت کے زندہ رہنے اورانصاف کے وجودکا یقین کیا جاسکتاہے۔

نیوزی لینڈایک ترقی یافتہ اورپرامن ملک تصورکیا جاتاتھا،لیکن افسوس!نیوزی لینڈکی پیشانی پربھی دہشت گردی کا داغ لگ گیا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ اسلام دشمن عناصراسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے بڑے خائف ہیں،اس لئے انہوں نے’’ اسلامی دہشت گردی‘‘ کی اصطلاح ایجادکی ہے تاکہ اسلام دشمنی میں کی جانے والی دہشت گردی پرپردہ ڈالا جاسکے،دنیا کے بعض بڑے ممالک عام ہلاکت کے کیمیائی جنگی ہتھیاروآلات کے موجدبھی ہیں اورفروخت کنندگان بھی۔دہشت گردی مچانے والوں کے پاس جوہتھیارپائے گئے ہیں کوئی یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ مسلمان اس کے موجدہیں یا کسی اسلامی فیکٹری میں تیارہوئے ہیں،افسوس اس بات کا ہے کہ اسلحہ کے خریدارمسلم ممالک ہیں اوران اسلحہ کا نشانہ بھی مسلمان ہی ہیں۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ جنگی ہتھیاردنیا سے ظلم وستم کومٹانے ، انسانی احترام وعظمت کی بحالی کیلئے استعمال ہوتے،لیکن صیہونی دہشت گردانہ حملوں نے ظلم ڈھانے اورمظلوم انسانوں کوخون میں لہولہان کرنے کا کام کیاہے،دہشت گردی کوختم کرنے اورکرئہ ارض کوامن وآمان کا گہوارہ بنانے کے فرضی لیبل کے ساتھ ظلم وجور،بربریت ودرندگی کا ایک ایسا ننگاناچ مسلم ممالک اورمسلم بستیوں میں برپا کیا گیا کہ جس سے انسانیت شرمندہ ہے۔افغانستان،عراق،لبنان،اورفلسطین کے معصوم انسانوں پرزبردستی جنگ مسلط کردی گئی اورانسانی آبادیوں کوتہس نہس کردیا گیا اوراب انہیں دشمنان اسلام کی سازش کی وجہ سعودی عربیہ اوریمن بھی جنگ کی آگ میں جل رہے ہیں۔ہندوستان ایک سیکولرملک ہے لیکن یہاں بھی وقفہ وقفہ سے ممبئی،گودھرا، وٹولی،گجرات وغیرہ میں انسان نمادرندوں نے جوفسادات برپاکئے اورمسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کئے وہ بھی انسانیت کودھلادینے والے روح فرسا واقعات ہیں جن کوتاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ستم بالائے ستم یہ کہ فرضی دہشت گردانہ واقعات کا ذمہ دارمسلم تنظیموں کویا مسلم نوجوانوں کوقراردیا جاتاہے اورپھرجیل کی سلاخوں کے پیچھے بندکرکے ان کی زندگی اورجوانی کے قیمتی لمحات سے کھلواڑکیا جاتاہے،یہ سب اس لئے کہ دنیا سے اسلام کے نام لیوامٹ جائیں، توحیدکی شمع گل ہوجائے،لیکن اللہ سبحانہ کی شان یہ ہے کہ وہ ہراس کوشش کو جواسلام اورمسلمانوں کے خلاف کی جاتی ہے اسکو اسلام کی حیات وزندگی میں اضافہ کا سبب بنادیتے ہیں۔چنانچہ ۱۱؍۹کے بعداسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیداکیا گیا تھا اسی نفرت نے بہت سے باطل افکارونظریات کے حامل انسانوں کواسلام کے مطالعہ پر مجبورکیا اوراسلام کوپڑھنے ،سمجھنے اورجاننے کے تجسس میں اضافہ ہوا،مغربی دنیا کی کئی ایک سرکردہ شخصیات مشرف بہ اسلام ہوئیں۔دشمنان اسلام نے اسلام کوانسان دشمن کے روپ میں پیش کرنے کی سازش رچی ،لیکن قدرت کا کرشمہ کہ اسلام کی فطری کشش نے ان کواسلام سے ایسا قریب کردیا کہ وہ اسلام کوانسانیت ہی نہیں بلکہ سارے خلائق کے دوست کے روپ میں دیکھنے لگے۔ منصف پسنداذہان جوق درجوق اسلام میں داخل ہونے لگے،اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد پاک ہے :
’’وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نورکواپنے منہ سے بجھادیں اوراللہ سبحانہ اپنے نورکوکمال تک پہنچانے والا ہے گوکہ کافروں کو ناپسند ہو‘‘(الصف:۸)
نورخداہے کفرکی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
نیوزی لینڈ کے شہداء کا خون رائیگاںنہیں جائے گا ’’اسلام زندہ ہوتاہے ہرکربلا کے بعد‘‘کے مصداق ضرور رنگ لاکررہے گا ۔
ایک اخباری اطلاع کے مطابق کثیرالمذاہب تنظیم Faith Mattersکی ایک تازہ رپورٹ میں جوانکشافات کئے گئے ہیں وہ اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ ۲۰۰۱؁ء میں برطانیہ میں اپنا مذہب چھوڑکراسلام کے سایہء رحمت میں پناہ لینے والوں کی تعدادساٹھ ہزارتھی جو ۲۰۱۰؁ء تک ایک لا کھ تک پہنچ گئی، پھر ان میں بھی اکثریت خواتین کی ہے ،۱۱؍۹سے پہلے اسلام کوسینے سے لگانے والی خواتین کا تناسب پچاس فیصدتھا لیکن پچھلے دس برس میں اب یہ تناسب سترفیصد تک پہنچ چکاہے۔ الغرض امریکہ کے Pew Forumکے سروے کے مطابق ۲۰۰۱؁ء میں برطانیہ میں مسلمانوں کی تعدادتخمینی سولہ لاکھ تھی اوراب وہ بفضل تعالی انتیس لاکھ سے تجاوزکرگئی ہے اوراس سے اندازہ قائم کیا ہے کہ ۰ ۲۰۳؁ء تک مسلمانوں کی تعدادپنتیس لاکھ تک ہوسکتی ہے۔کسی شاعرکا یہ شعراس حقیقت کا عکاس ہے۔
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتناہی وہ ابھرے گا جتنا کہ دبائوگے