پیشوائے طریقت حضرت ابوالخیرات ؒ اور خدا و بندے کے باہمی ربط و اتصال کی تشریح

   

آج انسان نے ترقی و تقدم کے ایسے سنگہائے میل کو عبور کیا ہے جس کی نظیریں سابقہ ادوار میں نہیں ملتیں اور اس نے کائنات کے ایسے دریچوں کو وا کیا ہے جس سے گزشتہ صدیاں ناآشنا تھیںجس نے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کو جوڑکر متحد کردیا ، سمندر کی گہرائیوں اور زمین کی تہہ میں ہزارہا سال سے چھپے حقائق کو آشکار کردیا فضاؤں میں سڑک اور پانی میں بنیادیں رکھدیں۔ اضداد کو جمع کردیا حاضر کو غائب ، غائب کو مشھود ، ناممکن کو ممکن اور ممکن کو موجود کردیا ۔ کائنات ارضی و سماوی کی مختلف حقائق کا سراغ حاصل کرنے میں تو کامیاب ہوا لیکن ایک ایسی حقیقت سے ناآشنا ہے جو ’’حقیقت الحقائق ‘‘ ہے، مجاز میں کھوکر حقیقت سے دور ہے۔ ایسے وجود محض سے نابلد ہے جس کے وجود پر کائنات کا ذرہ ذرہ شاہد عدل ہے ۔

تصرفاتِ کائنات میں ایسا سرگردان ہے کہ متصرف بالذات سے متعلق حیران و ششدر ہے ۔ پھول کو پاکر پھول کے رنگ و رونق میں مست ہے لیکن پھول کی خوشبو کے پس پردہ راز سے محروم ہے ۔ انبیاء کرام علیھم الصلاۃ والسلام ایسی ذوات قدسیہ ہیں جنھوں نے صرف حقائق اشیاء کا ادراک کیا بلکہ تمام حقیقتوں کی حقیقی حقیقت کا بھی سراغ بتایا ۔ ان میں سرفہرست ایک ایسی ہستی ہے جن کا وجود صدیوں پہلے مکہ کی ایک سنگلاخ وادی میں ہوا جنھوں نے حقائق کائنات کی جامع توضیحات کیں، کئی ایک پوشیدہ گتھیوں کو سلجھایا ۔ ابتدائے آفرینش سے لیکر اختتام دنیا اور مابعد القیامۃ اہم پہلوؤں کو جامع طورپر اُجاگر کیا ۔ سابقہ اُمتوں اور ان کے مصلحین کی تاریخ مدون کی خیر و شر کے معیار کو مقرر کیا ، حسن و قبح کی تفصیلات درج کیں، انسانیت کی فلاح اور ابدی سعادت کے اُصول مقرر کئے ۔ قیامت تک پیش آنے والے واقعات کو تحریر کیا جن کے حقائق اشیاء کے ادراک اور حقیقت الحقائق کی معرفت پر مبنی تعلیمات نیز تہذیب اخلاق کے فلسفہ اور اسلوب مقننہ سے دنیا کے عظیم دانشور دم بخود ہیں۔ اسی ہستی نے ساری کائنات کو حقیقت الحقائق کا ادراک کروایا اور اس حقیقت مبہمہ وغیرمحسوسہ پر ہزارہا عقلی شواہد و دلائل پیش کئے ۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے طریقہ میں تمام انبیاء علیھم الصلاۃ والسلام کے طرقہائے و صول الٰہی ضم ہیں ۔ نیز نبی اکرم ﷺ کا وجود باوجود ساری انسانیت بلکہ تمام عوالم کے لئے رحمت و بشارت ہے کہ آپ ﷺ نے کل کائنات کے سامنے اس حقیقت الحقائق کا واضح طورپر انکشاف فرمادیا کہ اب کسی کو مزید کسی محنت و تحقیق کی ضرورت باقی نہیں رہی ۔ ارشاد الٰہی ہے :

وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْـمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ
’’ہم نے آپ کو سارے جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا ‘‘
یعنی سرکار دوعالم ﷺ نے حقیقت الحقائق کا سراغ بتاکر ، اس کی وحدانیت ، اُلوہیت ، صمدیت ، خالقیت ، معبودیت ، قدرت ، علم ، حیات ، قیومیت وغیرہ مختلف پہلوؤں کو آشکا ر کرکے ساری دنیا کو بے نیاز کردیا ۔ نبی اکرم ﷺ نے خدا کے وجود اس کی محبت اور وصال سے متعلق ایسا جامع خلاصہ پیش کیا کہ اب اس سے بہتر ، افضل ، اعلیٰ ، اولیٰ اقرب اور جامع خلاصہ کوئی پیش نہیں کرسکتا۔ اب کائنات کو صرف ایمان لانے اور نبی اکرم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقہ پر عمل کرتے ہوئے قرب الٰہی اور وصالِ الٰہی حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔

خدا اور بندے کے اس باہمی ربط و تعلق کو بتانے کیلئے اور بندے کے روحانی منازل و مدارج اور خدائے ذوالجلال کی ذات ھمتا اور اس کے انوار و تجلیات کو سمجھانے اور اس کا حامل بنانے کیلئے اس اُمت کے مردان باہمت نے تصوف کی تعلیمات کو منظم کیا ۔
میرے پیر و مرشد حضرت ابوالخیرات سید انواراللہ شاہ نقشبندی مجددی و قادری نبیرۂ محدث دکن تصوف کی تعریف ، موضوع اور غرض و غایت اس طرح بیان کی ہے۔
تصوف کی تعریف : خدا اور بندے کے باہمی ارتباط کے اسرار کی معرفت کا نام تصوف ہے ۔
تصوف کاموضوع : فن تصوف کا موضوع خدا اور بندہ ہے ۔
غرض و غایت : معرفت الٰہی اور وصل دوام ہے ۔
خدا اور بندے کے تعلق و ربط رازوں میں ایک غیرمعمولی راز ہے جس کو سمجھنے سے بڑے بڑے عقلاء اور فلاسفر عاجز و بے بس ہیں۔
اسی راز ہائے سربستہ پر گفتگو کے دوران میرے پیر ومرشد حضرت ابوالخیرات سید انواراللہ شاہ نقشبندی مجددی و قادری علیہ الرحمۃ والرضوان نبیرۂ حضرت محدث دکنؒ نے فرمایا تھا جن کی زبان فیض ترجمان سے جاری ہونے والے اکثر کلمات کو اس خاکسار نے قید کتابت میں محفوظ کرلیا تھا ۔ آپ فرماتے ہیں :

’’ملک اور ملکوت میں عالم بالا اور عالم سفلی میں نظام شمسی کے تحت بری و بحری اور فضائی کے علاوہ دیگر نظامہائے سیارات میں خدائے وحدہٗ لاشریک کی ہر شئی نامعلوم سمت اور مقام کی طرف ازل سے رواں دواں ہے اور خاص منزل کی طرف بڑھتی جارہی ہیں۔ اتنے وسیع و طویل سفر کے لئے جو مخصوص میدان ہے اس کی وسعت کا تصور مشکل ہے۔ ان تمام عوالم میں موجود تمام مخلوقات کے درمیان انسان کا تصور کیا جائے تو وہ پن کے پوائنٹ اور رائی کے دانے کے برابر نہیں ، اس کے باوجود خدا خود فرماتا ہے : ’’مجھے نہ زمین سماسکی اور نہ آسماں مجھے ،اگر سمایا ہے تو میرے مومن بندے کے دل نے مجھے سمایا ہے ‘‘ ۔
خدا مختار کل اور بندہ مجبور محض ، خدا قادر مطلق اور بندہ عاجز و بے بس ، خدا بے نیاز اور بندہ نیازمند، خدا کامل ، بندہ ناقص ، اسقدر تناقض اور تفاوت کے باوجود خدا اور بندے کا باہمی ارتباط و اتصال ، اعلیٰ و ادنی کی یکجائی واجب اور ممکن کی وحدت ، بندے کا عروج اور خدا کا نزول ساری کائنات کیلئے مقام حیات ہے۔
خدا کا اپنے بندے کو اپنی صفات سے متصف کرنا اور کائنات میں صرف انسان کو خصوصی اور امتیازی تصرف عطا کرنا ، بندہ کا خدا کی صفات کو اپناکر مدارج پانا اور خدا کی مرضی کو پاکر فرش والے کا عرش مکیں تک رسائی حاصل کرنا اور اس کے انعام واکرام ، انوار و تجلیات کامستحق ہونا اولوالالباب اور اصحاب فکر کیلئے عظیم دعوت فکر ہے۔
اس راز کی گھتیوں کو سلجھانا اور یہ لطیف روحانی اعمال کے ادراک کو پانا اور ادوسرے ہم جنسوں تک فیضان الٰہی کو پہنچانا سی تصوف کے انواع و اجزاء ہیں‘‘۔