پیغام قربانی

   

یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
پیغام قربانی
برصغیر میں آج عید الاضحی منائی جا رہی ہے ۔ عالم عرب اور دنیا کے مختلف ممالک میں ایک دن قبل ہی عید الاضحی منائی گئی ۔ یہ موقع قربانی کا ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ رب العزت کی خوشنودی اور رضاء کیلئے اپنے فرزند حضرت اسمعیل علیہ السلام کو قربان کرنے سے بھی گریز نہیں کیا اور چونکہ رب کائنات کو صرف نیت دیکھنی تھی اور آزمائش ہی اصل مقصد تھا اسی لئے اللہ نے جنت سے ایک دنبہ اتارا اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کو ذبح ہونے سے بچا لیا ۔ عیدالاضحی کے موقع پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جو سنت قربانی کی ہے وہ محض ایک جانور یا دنبہ ذبح کرنے تک محدود نہیں ہے ۔یہ صبح قیامت تک کیلئے بنی نوع انسانی کیلئے ایک پیغام ہے کہ اللہ رب العزت کی رضا اور خوشنودی کیلئے دنیا کی سب سے عزیز شئے کو بھی قربان کرنے سے گریز نہ کیا جائے ۔ اللہ تعالی کو نہ کسی کے مال کی فکر ہے اور نہ کسی کی جان کی پرواہ ہے ۔ رب کائنات تو صرف بندوں کی نیتوں کو پرکھنا چاہتا ہے اور بندوں کیلئے یہ فریضہ بن جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں سب کچھ قربان کردینے سے بھی گریز نہ کیا جائے ۔ یہ پیغام صرف عیدالاضحی کے موقع پر ہی یاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں اپنی ساری زندگی کو اسی پیغام کے تابع کرنے کی ضرورت ہے ۔ زندگی کے ہر معاملہ میں ‘ زندگی کے کسی بھی موڑ پر رضائے الہی کے آگے سر تسلیم ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر ہم اپنے اعمال کو اللہ رب العزت کی رضاء کے مطابق ڈھالنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہی ہماری سب سے بڑی کامیابی ہے اور پھر سارے کام اللہ رب العزت اپنے فضل و کرم سے ہماری مرضی کے مطابق ڈھال دیگا ۔ اللہ تبارک و تعالی ہر شئے پر قادر ہے اور اس کیلئے جب حضرت اسمعیل علیہ السلام کی جگہ جنت سے دنبہ اتارنا مشکل نہیں رہا تو ہماری مشکلات کو دور کرنا بھی کوئی مشکل نہیں ہے ۔ اصل شرط یہی ہے کہ ہم اللہ رب العزت کی قدرت کو تسلیم کریں۔ اس کے احکام کے تابع اپنی زندگیوں کو ڈھال لیں ۔ اس کی رضاء کو ہی مقدم جانیں ۔راستہ میں چاہے کتنی ہی مشکلات آئیں ان سے گھبرائے بغیر رضائے الہی کے آگے سر جھادیں ۔ یہی ہماری کامیابی ہے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم عید قربان کے موقع پر ہر اس شئے کو قربان کرنے کا جذبہ اپنے آپ میں پیدا کریں جو اللہ رب العزت کی ناراضگی کاسبب بنتی ہے ۔ ہمیں اپنی انا ‘ اپنی اکڑ ‘ اپنے تکبر ‘ اپنی خامیوں اور برائیوں کو ترک کرنے اور اللہ کی راہ میں قربان کردینے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں اپنی زندگیوں کو اللہ تعالی کی مرضی کے مطابق ڈھالنے کا اس موقع پر عہد کرنا چاہئے ۔ ہمیں اس بات کا اعتراف کرنے کی ضرورت ہے کہ رب کائنات کی مرضی کے بغیر دنیا میں کچھ نہیں ہوسکتا ۔ اگر ہم دنیا میں اپنے رب کی رضاء کو مقدم رکھیں گے تو پھر اس کے ثمرات ہماری توقعات اور ہمارے تصور سے زیادہ بہتر ہونگے ۔ ہمیں اپنی زندگیوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ۔ آج اس بات کا عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو رضائے الہی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں گے ۔ احکامات الہی کی تعمیل میں کسی مصلحت یا کسی عذر کی تلاش نہیں کریں گے ۔ صدق دل سے اللہ تعالی کی مرضی کو قبول کرنے کا اپنے آپ میں جذبہ پیدا کریں گے ۔ جب تک ہم اپنے ایمان کو کامل اور مستحکم نہیں بنائیں گے اس وقت تک ہماری زندگیوں کی مشکلات کا خاتمہ ہونا ممکن نہیں ہے ۔ ہم آج دنیا بھر میں رسواء ہو رہے ہیں بے طرح مشکلات اور مصائب کا شکار ہیں۔ یہ صرف اس لئے ہورہا ہے کہ ہم نے رضائے الہی کو مقدم نہیں رکھا ہے اور اپنے ہی تصورات قائم کرلئے ہیں۔ ہم مسبب الاسباب پر تکیہ کرنے کی بجائے اسباب کی تلاش میں زیادہ سرگرم ہوگئے ہیں۔
شیطانی وسوسے یقینی طور پر ہمارا تعاقب کر رہے ہیں۔ اسی طرح جس طرح شیطان نے حضرت اسمعیل علیہ السلا م کو بھٹکانے کی کوشش کی تھی ۔ ہمیں بھی شیطانی وساوس سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی جدوجہد کرنی چاہئے ۔ اپنے عمل سے شیطان کو وہ کنکریاں مارنے کی ضرورت ہے جس سے شیطان کا وجود چھلنی ہوجائے ۔ صرف جانور ذبح کرتے ہوئے یا گوشت تقسیم کرتے ہوئے ہم عیدالاضحی کے حقیقی معنی کو نہیں سمجھ پائیں گے ۔ ہمیں اپنے عیبوں کو بھی نکال پھینکنے کی ضرورت ہے ۔ دلوں کی کدورتوں کو صاف کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنا چاہئے اور پھر ایک جذبہ کے ساتھ احکام خداوندی کی تعمیل کیلئے خود کو تیار کرلینا چاہئے ۔ یہی ایک صورت ہے کہ ہم دنیا میں بھی سرخرو ہوسکتے ہیں اور اخروی کامیابی بھی ہمارا مقدر بن سکتی ہے ۔ رضائے الہی کے علاوہ کامیابی کا کوئی اور راستہ نہیں ہوسکتا ۔
سری لنکا کا بحران
پڑوسی ملک سری لنکا میں بحران اپنے عروج کو پہونچ چکا ہے ۔ انتہائی سنگین معاشی بحران کی وجہ سے ملک کے عوام کو جن مشکلات کا سامنا ہے ان کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں مل سکتی ۔ عوام کو فیول نہیں مل رہا ہے ۔ بجلی نہ ہونے کے برابر ہوگئی ہے اور اشیائے ضروریہ کا حصول تک عوام کیلئے مشکل ہوگیا ہے ۔ عوام بحران کی اس گھڑی میں ممکنہ حد تک صبر کرنے کے بعد سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔ اس سے قبل بھی عوام کی جانب سے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا تھا تاہم ہفتے کو دارالحکومت کولمبو میں کرفیو کے باوجود جس بھاری تعداد میں عوام نے احتجاج میں حصہ لیا اس سے ایسے حکمرانوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو اقتدار کے نشہ میں عوامی مشکلات کی پرواہ نہیں کرتے ۔ عوامی غیض و غضب کو دیکھتے ہوئے کسی وقت میں حرف آخر سمجھے جانے والے صدر گوٹابایا راجہ پکشے کو بھی اپنے محل سے فرار اختیار کرنی پڑی ۔ ان کے بھائی سابق وزیر اعظم مہندا راجہ پکشے بھی پہلے ہی مستعفی ہوچکے ہیں۔ موجودہ وزیر اعظم رانیل وکرما سنگھے بھی مستعفی ہونے کیلئے تیار ہیں۔ ان قائدین کو جن عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعہ اقتدار سونپا تھا وہی اب ان کی بیدخلی کی وجہ بن رہے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عوامی غیض و غضب کے آگے کوئی طاقت کارآمد نہیں ہوسکتی اور جو حکمران عوامی توقعات اور جذبات کی قدر کرنے کی بجائے اقتدار کے نشہ میں دھت ہوتے ہیں انہیں اس سے سبق لینے کی ضرورت ہے ۔