پیکر عمل بن کر غیب کی صدا بن جا| ✍🏼 اسامہ عظیم فلاحی

   

نسل انسانی کے تسلسل اور عفت و پاکدامنی کے تحفظ کے لئے انسانوں کے درمیان رشتہ ازدواج ہمیشہ سے ایک پاکیزہ عمل رہا ہے۔ اسی عمل سے ایک پاکیزہ خاندان اور پھر معاشرہ تشکیل پاتا ہے، گویا کہ یہ سماج کی تشکیل کی پہلی بنیاد ہے۔ لہذا فطرت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ نکاح کا یہ عمل بیجا جکڑ بندیوں سے آزاد ہو، ورنہ سماج سے نہ صرف عفت و پاکدامنی ختم ہوجائے گی بلکہ نسل انسانی کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا۔اسلام نے معاشرتی نظام کی پہلی کڑی نکاح کی تفصیلات کو کھول کھول کر بیان کیا ہے۔ان تفصیلات پر غور کرنے سے یہ بات آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ نکاح کے عمل کو اللہ نے نہ صرف نہایت آسان بنایا ہے بلکہ اس کی حفاظت پر بھی بھرپور توجہ دی ہے تاکہ خاندان کے اس شیرازے کی حفاظت ہر ممکن حد تک ہوسکے۔ اور اس پورے عمل کو تقوی کی بنیاد پر انجام دینے کی تلقین کرکے اس کو عبادت کے درجے پر فائز کرکے نوع انساں پر ایک طرح سے احسان کیا ہے۔ہمارے ملک بھارت جہاں نوع بنوع کے باطل عقائد پاوں پسارے ہوئے ہیں وہیں جاہلی رسومات نے بھی انہیں جکڑ رکھا ہے۔ ان رسومات میں شادی کی رسومات سر فہرست ہیں۔ بدقسمتی سے ہندوؤں کی شادی کی جاہلی رسومات ہمارے یہاں بھی جڑ پکڑ چکی ہیں جو اب ناسور بن گئی ہیں اور طرح طرح کے فتنوں کا سبب بن رہی ہیں۔ ان رسومات کو مٹانے کے لیے ملک کی مختلف تنظیموں نے اس کے خلاف مہمیں چلائیں، علماء نے تقریریں کیں، حکومت نے قوانین بنائے لیکن یہ رسومات ہیں کہ کم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ ان رسومات کو فروغ دے رہا ہے اور علماء کرام اس سلسلے میں مضبوط مثالیں پیش کرنے سے قاصر رہے جس کی وجہ سے سادہ اور آسان نکاح جو بارات، جہیز اور فضولیات سے پاک ہو کا تصور ہی کرنا ناممکن نظر آتا ہے۔تو کیا یہ مان لیا جائے کہ سادہ سنت کے مطابق نکاح آج ممکن ہی نہیں ہے؟ ممکن ہے۔ لیکن اس کے لئے نوجوانوں کی ذہن سازی کی سخت ضرورت ہے۔اگران کی ذہن سازی کردی گئی تو پھر یہ کام نہایت آسان ہوجاتا ہے۔ یہ کوئی تصوراتی دعوی نہیں ہے بلکہ اس کی درجنوں مثالیں موجود ہیں۔بھارت میں اسلام یوتھ فیڈریشن کے نام سے طلبہ اور نوجوانوں کا گروپ سرگرم ہے جو اعلاء کلمۃ اللہ کی خاطر طلبہ و نوجوانوں کی نہ صرف فکر سازی کرتا ہے بلکہ انہیں سماج میں رائج باطل رسومات کو اپنے عمل کے ذریعے اکھاڑ پھینکنے پر آمادہ کرتا ہے جس میں شادی کی رسومات سرفہرست ہیں۔ اس تنظیم سے وابستہ کوئی بھی فرد شادی کی باطل رسومات کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا۔ وہ ان کے خلاف بغاوت کرنا گوارہ کرلیتا ہے لیکن ان رسومات کے قریب بھی نہیں جاتا۔ بھارت کے مشہور ضلع اعظم گڑھ میں اس تنظیم کے درجنوں افراد نے پچھلے چھ سات سالوں میں درجنوں مثالیں قائم کرکے اس کو ایک تحریک کی شکل دے دیا ہے اور اب سادگی کے ساتھ نکاح تیزی سے عام ہورہا ہے فللہ الحمد۔ ابھی چند روز قبل ہریانہ کے شہر انبالہ میں اس تحریک کے ایک ممبر نے جہیز اور بارات جیسی رسومات سے بچ کر نکاح کیا ہے جب کہ اس علاقے میں اس طرح کے نکاح کا تصور ناممکن تھا۔ راقم نے اس نکاح میں بذات خود شرکت کی اور نکاح کے بعد چند نوجوانوں سے ان کے احساسات جاننا چاہا۔ انہوں نے اس طرح کے نکاح پر حیرت کا اظہار کیا اور وعدہ کیا کہ ان شاءاللہ وہ بھی اسی طرح رسومات سے پاک نکاح کریں گے۔ اللہ انہیں توفیق عطاء فرمائے۔ واضح رہے کہ اسلامک یوتھ فیڈریشن کے ملک بھر میں موجود افراد سادگی کے ساتھ ہی شادی کرتے ہیں۔بڑی خوشی کی بات ہے ہےکہ آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈکی اصلاح معاشرہ کمیٹی آسان اور مسنون نکاح مہم چلارہی ہے٬جس کی وجہ سے مختلف علاقوں میں بڑی بیداری پیداہوئی ہےاور بڑےاچھےاثرات و نتائج سامنےآرہےہیں۔یہ مہم وقت کی اہم ضرورت ہے٬اسی کےساتھ ساتھ اس بات کی بھی بہت ضرورت ہےکہ قول کے ساتھ ساتھ عملی مثالیں پیش کی جائیں ورنہ ساری محنت رائیگاں جانے کا اندیشہ ہے۔

آدمی سنتا نہیں آدمی کی باتوں کو

پیکر عمل بن کر غیب کی صدا بن جا

✍🏼 اسامہ عظیم فلاحی(ممبر اسلامک یوتھ فیڈریشن، ریسرچ اسکالر، پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ)

سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ