پیگاسس جاسوسی معاملہ: 17 صحافی اسرائیلی کمپنی کیخلاف شکایت کا حصہ

   

ہر ایک کے پاس تازہ ماڈل کا فون نہیں ہوتا جس میں جدید ترین سافٹ ویر موجود ہوں، آر ایس ایف نے صحافیوں کے کیسیس اقوام متحدہ کے حوالے کردیئے

کراچی۔ پیگاسس جاسوس معاملے میں پوری دنیا میں مچنے والے طوفان کے درمیان اسرائیلی کمپنی کی جانب سے جاسوسی کے لیے تیار کردہ سافٹ ویئر پیگاسس کا نشانہ بننے والے 7 ممالک کے 17 صحافیوں نے این ایس او گروپ کے خلاف پیرس میں پراسیکیوٹرز کے پاس شکایات درج کرائی ہیں۔ ڈان میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق ان شکایات میں رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) حاصل ہے جبکہ فرانسیسی مراکش کی دوہری شہریت کے حامل دو صحافیوں نے پہلے ہی 20 جولائی کو اسرائیلی کمپنی کے خلاف شکایت دائر کر چکے ہیں۔اس کے علاوہ آر ایس ایف نے کیسز کو اقوام متحدہ کے حوالے کردیا، آر ایس ایف پہلے ہی این ایس او گروپ کو اپنی ‘ڈیجیٹل شکاریوں’ کی فہرست میں شامل کی چکی ہے ۔ آذربائیجان اور ہنگری سے دو دو،ہندوستان اور میکسیکو سے پانچ پانچ، اور مراقش، اسپین اور ٹوگو سے ایک ایک ان 200 صحافیوں میں شامل ہیں جنہیں گزشتہ ماہ ‘پیگاسس پروجیکٹ’کی تحقیقات ٹیم سامنے لائی۔ واضح رہے کہ اسرائیلی کمپنی این ایس او گروپ کے پیگاسس ا سپائی ویئر کے ذریعے مذکورہ صحافیوں کی خفیہ نگرانی کی تھی۔ کئی مدعی برسوں سے اپنی حکومتوں کے زبانی حملوں کا سامنا کر رہے ہیں، ان میں مراکش کا ہیشم منصوری اور ہندوستان کی سواتی چترویدی ہیں جنہیں 2018 میں آر ایس ایف پریس فریڈم پرائز سے نوازا گیا تھا۔ آر ایس ایف کی ترجمان پالین اڈیس موویل نے کہا کہ ہر براعظم سے ان صحافیوں کی جانب سے دائر کی گئی شکایات درج کی گئی ہے جنہوں نے این ایس او گروپ کے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے کی جانے والی نگرانی کی تصدیق کرتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ تفتیش میں ان تمام افراد کی نشاندہی کرنی چاہیے ، چاہے کمپنی کے ایگزیکٹو ہوں یا متعلقہ ممالک کے اعلیٰ سرکاری افسران ہوں، کوئی شک باقی نہیں رہنا چاہیے ، حقائق سے پردہ مکمل طور پر اٹھایا جانا اور انصاف ہونا چاہیے ۔آر ایس ایف نے ان 17 صحافیوں کے کیسز کو اقوام متحدہ کے 4 خصوصی نمائندوں کے حوالے کیا ہے اور ان سے کہا گیا کہ وہ ان حکومتوں سے وضاحت طلب کریں جو پیگاسس کو صحافیوں کی جاسوسی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ برطانیہ کی سرے یونیورسٹی میں سائبرسیکیورٹی کے پروفیسر ایلن ووڈ ورڈ نے کہا کہ پیگاسس شاید سب سے باصلاحیت ایسا سافٹ ویئر ہے جو ریموٹ طریقے سے کام کرتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ آپ اس کو ایسے تصور کریں کہ جیسے آپ نے اپنا فن کسی اور کے ہاتھ میں دے دیا ہو، اس کا استعمال مذکورہ ہدف کے میسجز اور ای میلز کو پڑھنے ، تصاویر دیکھنے ، کالوں پر نظر رکھنے ، ان کی جگہ کا پتہ لگانے اور یہاں تک کہ ان کے اپنے کیمرے سے فلم بندی کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ۔مسٹر ووڈ ورڈ نے کہا کہ پیگاسس کے ڈیولپرز نے مختلف سافٹ ویئر میں چھپنے کے بہتر سے بہتر مقامات تلاش کر لیے ہیں اور اب یہ پتہ کرنا انتہائی مشکل ہے کہ اس میں یہ مال ویئر ہے یا نہیں۔یہی وجہ ہے کہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ کتنے لوگوں کی ڈیوائسز کو ٹیپ کیا گیا ہے ، اگرچہ بین الاقوامی میڈیا کی نئی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ 50ہزار سے زیادہ فون نمبروں کی شناخت این ایس او کے مؤکلوں کے لیے دلچسپی کا باعث بنی ہوئی ہے ۔تاہم پیگاسس کی تحقیقات کرنے والی تنظیموں میں سے ایک ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکیورٹی لیب نے بتایا کہ اسے رواں ماہ تک ایپل آئی فون پر کامیاب حملوں کے آثار ملے ہیں۔ ایپل اور گوگل جیسی اربوں ڈالر کی ٹیک کمپنیاں ہر سال بڑی تعداد میں بھاری سرمایہ کاری کرتی ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ان ہیکرز سے خطرہ نہ ہو جو ان کے سافٹ ویئر اور سسٹم کو تباہ کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔یہاں تک کہ اگر کسی حملے سے قبل ہیکرز کسی قسم کے نقائص یا خامیوں کی نشاندہی کریں تو وہ انہیں اعلیٰ انعامات سے بھی نوازتے ہیں۔ ووڈ ورڈ نے کہا کہ اپنے سافٹ ویئر کی سیکیورٹی پر فخر کرنے والے ایپل نے کمزور پہلوؤں کی نشاندہی کے لیے کافی گراں قدر کوششیں کی ہیں لیکن اس طرح کے پیچیدہ سافٹ ویئر میں لامحالہ ایک یا دو خامیاں تو ہوں گی۔تجزیہ کاروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ این ایس او شاید ڈارک ویب پر بھی کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہے جہاں ہیکرز ان سیکیورٹی خامیوں کے بارے میں معلومات اکثر فروخت کرتے ہیں۔ ووڈ ورڈ نے مزید کہا کہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہر ایک کے پاس تازہ ماڈل کا فون نہیں ہوتا ہے جس میں جدید ترین سافٹ ویئر موجود ہوں، کچھ ایسی کمزوریاں جن پر گوگل نے اینڈرائیڈ اور ایپل نے قابو پا لیا ہے ، ہو سکتا ہے کہ وہ پرانے فون میں اب بھی موجود ہوں۔