پی چدمبرم، سابق مرکزی وزیرداخلہخواتین تحفظات کا نفاذ کب ہوگا؟

   

ہندوستان کی دستوری و پارلیمانی تاریخ کی تین اہم ترین تواریخ میں تین تواریخ ایسی ہیں جنھیں ہرگز فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ایک تو 12 ستمبر 1996 ء، دوسری 9 مارچ 2010 ء اور تیسری 18 ستمبر 2023 ء۔ آپ کو بتاتے ہیں کہ آخر یہ تواریخ اہم ترین کیوں ہیں؟
12 ستمبر 1996 ء : وزیراعظم دیوے گوڑ کی حکومت نے پارلیمنٹ میں دستوری (81 ویں ترمیمی) بل پیش کیا۔ اس بل نے لوک سبھا اور ریاستی قانون ساز اسمبلیوں کی ایک تہائی نشستیں خواتین کے لئے محفوظ کرنے اور انھیں (خواتین) کو فراہم کرنے کی گنجائش فراہم کی تھی لیکن بدقسمتی سے اس پر مزید پیشرفت نہ ہوسکی۔
9 مارچ 2010 ء : اس وقت کے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت نے راجیہ سبھا میں دستوری (108 ویں ترمیمی) بل پیش کیا جو اسی طرح کا بل تھا جو 1996 ء میں پیش کیا گیا تھا اور ڈاکٹر سنگھ حکومت کے پیش کردہ اس بل کو 186.1 سے منظور کرلیا گیا اور پھر اس بل کو لوک سبھا منتقل کیا گیا تاکہ ایوان زیریں میں بھی اس بل کو منظور کیا جائے لیکن وہ بل بھی لوک سبھا میں زیرالتواء رہا اور 15 ویں لوک سبھا کی تحلیل کے ساتھ ہی بل کی مدت ختم ہوگئی۔
18 ستمبر 2023 ء : وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے لوک سبھا میں دستوری (128 ویں ترمیم) بل پیش کیا تاکہ خواتین کو لوک سبھا اور اسمبلیوں میں 33 فیصد تحفظات فراہم کئے جائیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ لوک سبھا اور اسمبلیوں میں خواتین کے لئے ایک تہائی نشستیں محفوظ کی جائیں گی۔ یہ بل بھی ماضی کے بلز کی طرح ہی ہیں لیکن تین رکاوٹیں ہیں۔
اگر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں خواتین تحفظات بل ایک مرتبہ منظور ہوتا ہے اور اس پر صدرجمہوریہ کے دستخط ہوجاتے ہیں تو نئی دفعہ 334A کے تحت اس قانون یا بل کا نفاذ اس مقصد کے لئے کی جانے والی حد بندی کی مشق شروع ہونے کے بعد کی جانے والی مردم شماری اور اس سے متعلق اعداد و شمار کے منظر عام پر آتے ہی عمل میں آئے گا یعنی پہلے پارلیمنٹ حلقوں کی حد بندی کی جائے گی پھر مردم شماری ہوگی اور مردم شماری میں یہ پتہ چل جائے گا کہ خاتون رائے دہندوں کی تعداد کتنی ہے اور کونسے ایسے حلقے ہیں جنھیں خواتین کے لئے محفوظ کیا جاسکتا ہے (یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا دستور کی (128 ویں ترمیم) دفعہ شائع ہوچکی ہے؟
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ پچھلی مردم شماری 2011 ء میں کی گئی۔ نئی مردم شماری سال 2021 ء میں ہونے والی تھی اور اس میں غیر ارادی طور پر تاخیر کی گئی۔ اگر دیکھا جائے تو مردم شماری ایک بڑی اور وسیع مشق ہے اور اس کے نتائج شائع ہونے میں دو سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے۔ اگلی مردم شماری کی تاریخ غیر متعین ہے۔ آپ کو یہ بتانا بھی ضروری ہوگا کہ دستور کی دفعہ 82 کی تیسری پروویژن کے ذریعہ لوک سبھا میں ہر ریاست کے لئے نشستوں کی دوبارہ تقسیم کو 2026 ء تک روکے رکھا گیا ہے۔ دوسری طرف ’’ایک شخص ایک ووٹ‘‘ کے اُصول کے تحت جنوبی اور مغربی ریاستیں اپنی نشستوں سے محروم ہوجائیں گی اور شمالی ہند کی ریاستوں میں پارلیمانی نشستوں میں اضافہ ہوگا۔ جن ریاستوں کے پارلیمانی حلقوں میں کمی کا امکان ہے وہاں کی حکومتوں کا کہنا ہے کہ انہیں معاشی، تعلیمی اور نگہداشت صحت کے شعبوں میں ترقی کے ساتھ ساتھ آبادی پر کنٹرول کے لئے مؤثر اقدامات کرنے کی سزا دی جارہی ہے۔ کیوں کہ ان ریاستوں نے مذکورہ تمام شعبوں میں شرح نمو کو معتدل رکھا ہے۔ اگرچہ 2026 ء کے بعد پہلی مردم شماری کے نتائج کی اشاعت جو منجمد تھی اسے اٹھالیا جائے گا اور اسی مشق کو کئی ایک سیاسی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ حلقوں کی ازسرنو تقسیم کے بعد حدبندی کی مشق حد بندی سے متعلق نئے قانون کے تحت شروع ہوگی۔ واضح رہے کہ آخری مرتبہ سال 2002 ء میں حد بندی مشق شروع کی گئی جو 6 سال بعد 19 فروری 2008 ء میں پائے تکمیل تک پہنچی۔ بہرحال مردم شماری 2026 ء کو ہوگی پھر اس کے بعد مرد و خواتین رائے دہندوں کی جملہ تعداد اور ان کے تناسب کا پتہ چلے گا، حلقوں کی نئی حد بندی ہوگی پھر لوک سبھا میں نشستوں کی ازسرنو تقسیم یا تعین ہوگا اور آخر میں خواتین تحفظات پر عمل آوری ہوگی۔ مجھے اندیشہ ہے کہ 2029 ء تک خواتین تحفظات بل پر عمل آوری نہیں ہوگی۔ جہاں تک مودی حکومت کا سوال ہے وہ خواتین تحفظات بل کی راہ میں آنے والی ان رکاوٹوں سے لاعلمی کا اظہار نہیں کرسکتی جو اُس نے تحفظات کے نفاذ کی راہ میں لاعلمی سے کھڑی کی ہیں۔