چندہ کا دھندہ اور ایس بی آئی

   

روش کمار
سپریم کورٹ نے الیکٹورل بانڈ اسکیم کی منسوخی کا فیصلہ کرتے ہوئے نہ صرف مودی حکومت بلکہ ملک کی سب سے بڑی بینک اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو پریشانی میں مبتلاء کردیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے تاریخی فیصلہ پر وزیر اعظم نریندر مودی نے راست نہیں تو بالواسطہ تنقید کی ہے۔ مودی جی اور بی جے پی قائدین سے لیکر اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے عہدہ داروں کو شائد اس بات کی فکر ہے کہ کہیں الیکٹورل بانڈس کے ذریعہ جن اداروں، کمپنیوں، صنعتی گھرانوں اور شخصیتوں نے بی جے پی کو بھاری چندے ( عطیات ) دیئے ہیں ان کے نام منظر عام پر نہ آجائیں اور سب کو پتہ چل جائے گا کہ کس نے کتنا چندہ دیا ہے۔ اب ماہرین قانون اور فکر مند شہری یہ سوال کرنے لگے ہیں کہ آخر سپریم کورٹ کی جانب سے طلب کردہ تفصیلات فراہم کرنے سے اسٹیٹ بینک آف انڈیا کیوں شرما رہی ہے، ٹال مٹول سے کیوں کام لے رہی ہے اور آخر ایس بی آئی نے تفصیلات فراہم کرنے کیلئے جون تک کی مہلت کیوں مانگی؟۔ آپ کو بتادیں کہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا کوئی معمولی بینک نہیں یا حالیہ برسوں میں قائم نہیں ہوئی ‘ ایس بی آئی 200 سال پرانا بینک ہے اور ہندوستان کا سب سے بڑا بینک ہے جس بینک کے 48 کروڑ صارفین ( اکاؤنٹ ہولڈرس ) ہوں اور وہ بینک کہے کہ 21 دن کے اندر الیکٹورل بانڈس کا حساب کتاب نہیں دے سکتا ، یہ بات تمام کو پریشان کررہی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی اپنی ایک انفرادیت اور پہچان ہے۔ ایس بی آئی کے عہدہ داروں نے جب سے سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی ہے کہ الیکٹورل بانڈس سے متعلق تفصیلات پیش کرنے میں 134 دن لگیں گے، لوگ سپریم کورٹ کا مذاق اُڑا رہے ہیں اور سوال کررہے ہیں کہ انہیں اس بات کا شبہ ہے کہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا 16000 کروڑ روپئے کا گھوٹالہ چھپائے گا۔ یہ بینک جس کا بھی ہوگا اس کا بھی چہرہ ہوگا ، نام ہوگا، ہم ان چہروں کی بات کریں گے۔ سپریم کورٹ نے بینک عہدہ داروں کی اپیل پر اپنا فیصلہ نہیں دیا مگر ان لوگوں کی وجہ سے لوگو ں کا دل بیٹھ گیا ہے کہ اب چندہ کا کھیل کھیلنے والے گھوٹالہ بازوں کے نام انتخابات سے پہلے منظرِ عام پر نہیں آسکیں گے۔ ہم نام اور چہرہ کی بات اس لئے کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ہر جگہ نام اور اس کا لوگو ہی چہرہ بنا ہوا ہے جیسے کانگریس نے ایک پوسٹر جاری کیا اسٹیٹ بینک آف انڈیا کا لوگو Key hole ہے، کانگریس نے دکھایا ہے کہ اس کے پیچھے سے وزیر اعظم نریندر مودی جھانک رہے ہیں‘ لکھا ہے کہ ایس بی آئی کس کو چھپا رہا ہے؟ اس طرح کے لوگو سے پتہ نہیں چلتا کہ اس بینک کو کوئی آدمی بھی چلاتا ہے۔ اتنے بڑے بینک کی شبیہہ داؤ پر لگانے والی ان شخصیتوں کے بارے میں تھوڑی بہت جانکاری آپ کو ہونی بھی چاہیئے۔ نوٹ بندی کے وقت تو کسی بینک نے نہیں کہا کہ ہم نہیں کرپائیں گے، ہمیں چار ماہ کی مہلت چاہیئے۔بس سب کو جھکنا پڑگیا اور کیا بھی گیا پھر ایس بی آئی کو بچانے کیلئے 136 دن کی مہلت مانگ رہا ہے؟ اس طرح کا فیصلہ لینے والے یہ لوگ کون ہیں؟ آپ جانتے ہیں کہ الیکٹورل بانڈس فروخت کرنے کی اجازت صرف ایس بی آئی کو ملی تھی مگر 15 فبروری 2024 کو سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد بانڈس فروخت کرنے پر پابندی لگادی گئی اسے غیر دستوری مانتے ہوئے مسترد کردیا گیا۔ ملیئے دنیش کمار کھرا سے جو ایس بی آئی کے صدرنشین ہیں۔ سوا دو لاکھ سے زائد ملازمین والے اسٹیٹ بینک کے صدرنشین‘ کہیں سے گذر جاتے ہوں گے تو دفتروں میں سنسنی مچ جاتی ہوگی، کرسیاں چھوڑ کر کھڑے ہونے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہوگا، یہ سب اگر نہیں بھی ہوتا ہوگا تب بھی اسٹیٹ بینک کے چیرمین کا اپنا رُتبہ تو ہوتا ہی ہے، کیا یہ رُتبہ صرف عہدہ اور کرسی سے ہونا چاہیئے۔ دنیش کمار کھرا کی قیادت میں اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے جو فیصلہ کیا ہے اس سے اس بینک کی ساکھ داؤ پر لگ گئی ہے جس بینک میں ہردن 23 ہزار ڈیجیٹل سیونگ اکاؤنٹس کھولے جاتے ہوں وہ بینک کہے کہ 22217 الیکٹورل بانڈس کی معلومات فراہم کرنے میں اُسے 136 دن چاہیئے تو اُس بینک کی شبیہہ کے بارے میں بات چیت ضرور ہوجاتی ہے۔ مسٹر کھرا اس وقت دس مہینوں کی توسیع پر ہیں۔
وزیر اعظم کی زیر قیادت تقررات سے متعلق کابینی کمیٹی نے ان کی خدمات میں دس ماہ کی توسیع کی ۔ اکٹوبر 2023 میں ان کی سبکدوشی سے ٹھیک ایک دن پہلے انہیں دس ماہ کی توسیع ملی تھی۔ اگسٹ2024 تک وہ ایس بی آئی چیرمین کے عہدہ پر رہیں گے۔ توسیع ملنے کے پیچھے ایک وجہ یہی رہی ہوگی کہ ان سے قابل کوئی دوسرا شخص نہیں ملا اور نہ 10 ماہ تک ملنے کی اُمید ہوگی۔ اپنی خدمات میں 10 ماہ کی توسیع کے موقع پر دنیش کمار کھرا نے میڈیا سے کہا تھا کہ وہ ڈیٹا اینالیٹکس پر کام کررہے ہیں لیکن آج وہی دنیش کمار الیکٹورل بانڈس کی ڈیٹا انیالیٹکس کیلئے چار ماہ کی مہلت مانگ رہے ہیں۔ 22217 الیکٹورل بانڈس کی تفصیلات کیلئے ہمارا سوال ہے کہ ایسے میں ان کی صلاحیت اور اہلیت پر سوال کیوں نہیں کیا جانا چاہیئے۔ جب بینک پر سوال ہوسکتا ہے تو بینک کے چیرمین کی اہلیت پر سوال کیوں نہ کیا جائے۔ کیا دنیش کمار کھرا تاریخ میں اپنا نام اس طرح درج کرانا چاہیں گے کہ جس شخص کا بینکنگ شعبہ میں 40 برس کا تجربہ ہو، کیا ایسا شخص اپنی زندگی بھر کی کمائی ایسے لوگوں کو بچانے میں لگا سکتا ہے ان لوگوں کو جنہوں نے چندہ کے نام پر جمہوریت سے دھندہ کیا اور گھوٹالہ کیا ہے۔ کئی لوگ ایس بی آئی کے فیصلہ کو اس طرح سے بھی دیکھ رہے ہیں جیسے بینک نے چندہ کے دھندہ میں شامل لوگوں کو بچاکر ملک کے دستور کی روح اور جمہوریت کی پیٹھ میں چُھرا گھونپنے کا کام کیا ہے۔ اسی تناظر میں ہم دنیش کمار کھرا کی بات کررہے ہیں کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ ان کی بھی بات ہو جن کی قیادت میں SBI نے اتنا بڑا فیصلہ لیا ہوگا جس فیصلہ کی وجہ سے 15 مارچ تک دستور کے ساتھ دھوکہ کرنے والوں اور ہزاروں کروڑ روپئے کا چندہ دینے والوں کا نام وقت پر سامنے نہیں آسکے گا، تو ایسے فرد کا نام بھی لیا جانا چاہیئے ۔ فیصلہ SBI کے لوگو یا سائن بورڈ نے نہیں لیا، فیصلہ لینے والی عظیم شخصیتوں کے بارے میں آپ کو جاننا ہی چاہیئے۔ دنیش کمار کھرا اکٹوبر 2020 میں اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے چیرمین کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ دہلی یونیورسٹی سے کامرس اور ایم بی اے کی پڑھائی کی ہے۔1984 میں ایس بی آئی میں شمولیت اختیار کی اور اس کے 5 اسوسی ایٹس بینکوں اور بھارتیہ مہیلا بینک کا جب قیام عمل میں آیا ان میں کھرا کا اہم کردار رہا۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب دنیش کمار کھرا SBI کے رسک اور آئی ٹی اور کمباونس کے انچارج بھی رہے ہیں یعنی ان کو آئی ٹی کے شعبہ میں اچھا خاصا تجربہ بھی ہے۔
’ فینانشیل اکسپریس‘ نے رپورٹ کیا ہے کہ 2022-23 میں ان کی تنخواہ پچھلے سال کے مقابلہ 7.5 فیصد بڑھا دی گئی۔ اخبار نے ان کی تنخواہ کے بارے میں کیوں رپورٹ کیا ہے ہمیں سمجھ نہیں آیا۔ ڈیجیٹل کامیابی کو اسٹیٹ بینک بڑھا چڑھا کر بتاتا ہے مگر الیکٹورل بانڈس کی جانکاری ڈیجیٹل طریقہ سے نہیں رکھتا، کیوں نہیں رکھتا ہے اور اگر رکھتا ہے تو میلان کا ڈیٹا دینے میں 3 ہفتے کی جگہ چار ماہ کیوں چاہیئے؟ ڈسمبر 2023 میں سی این بی سی ٹی وی 18سے دنیش کمار کھرا نے کہا تھا کہ ہم سب کیلئے ڈیجیٹل پہلی ترجیح ہے اور ہم نے اس میں کافی پیشرفت کی ہے تاکہ اپنی ڈیجیٹل صلاحیتوں میں اضافہ کرسکیں۔SBI کی ویب سائیٹس پر جائیں گے تو چیرمین دنیش کمار کھرا کا یہی پیام ملے گا جس میں انہوں نے پوری تفصیل سے بتایا ہے کہ گذرے برسوں میں SBI نے کیا کیا کارنامے انجام دیئے ہیں، کیا کیا حاصل کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ مالی سال 2023 میں ایس بی آئی نے سوا کروڑ ریگولر سیونگ اکاؤنٹس کھولے جن میں سے 60% ڈیجیٹل طریقہ سے کھولے گئے۔ یہ جانکاری بھی دی گئی کہ2023 میں SBI کو آئی بی اے سالانہ بینکنگ ٹکنالوجی ایوارڈ دیا گیا۔ بیسٹ ڈیجیٹل فینانشیل انکلوژن کے زمرہ میں مسلسل چوتھی بار نوازا گیا تھا۔ دنیش کمار کھرا کو ماضی میں بھی دو سال کی توسیع دی جاچکی تھی یعنی جب وہ منیجنگ ڈائرکٹر کے عہدہ پر فائز تھے تب ان کی خدمات میں مذکورہ توسیع دی گئی تھی اور یہ توسیع مودی حکومت نے دی۔ اکٹوبر 2020 میں وہ چیرمین SBI بنائے گئے، اس وقت وہ 10 ماہ کی توسیع پر ہیں۔SBI کے انتونی کمار تیواری کی بھی خدمات میں دو سال کی توسیع کی گئی ہے۔ وہ کافی قابل شخص ہوں گے تب ہی دو سال کی توسیع ملی ہے۔ اتنے قابل فرد کے ہوتے ہوئے اسٹیٹ بینک 21 دنوں میں 22217 بانڈس کی تفصیلات الیکشن کمیشن کو نہیں دے سکتا ہے، کیا ان کی قیادت میں بینک دن رات لگا کر جانکاری نہیں دے سکتا تھا۔ کیا یہ بات ان کے بینک کے عہدہ دار نہیں جانتے ہیں کہ جب ہدف پورا کرنا ہوتا ہے تو بینکوں کی ہزاروں شاخوں میں لاکھوں عہدہ دار کیسے دن رات کام کرتے ہیں۔ برانچ میں دیر رات تک بیٹھے رہتے ہیں اور ہدف پورا کرنے کا دباؤ برداشت کرتے ہیں تب اسٹیٹ بینک نے یہ چیلنج قبول کیوں نہیں کیا اور سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کرکے کیوں نہیں ملک کو دکھادیا۔
ہم بات کرتے ہیں اشونی کمار تیواری ایس بی آئی کے اعلیٰ عہدہ دار کی‘ جاریہ سال جنوری میں ہی ان کی خدمات ختم ہونے والی تھی لیکن ان کی خدمات میں دو سال کی توسیع دے دی گئی ۔ اشونی کمار تیواری کی دو سال تک خدمات میں توسیع سے کتنے لوگوں کا منیجنگ ڈائرکٹر بننے کا موقع ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوگیا ہوگا، تقررات کی کابینہ کمیٹی نے ان کی خدمات میں توسیع کی ہے یعنی یہ اعلیٰ سطحی معاملہ ہے۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کابینی کمیٹی میں ہوتے ہیں۔ قاعدہ سے سپریم کورٹ کے احکامات کو نافذ نہیں کرپانے کی وجہ سے خدمات میں توسیع کے تحت چل رہے ان عہدہ داروں کو فوری عہدوں سے ہٹادینا چاہیئے، دوسرے عہدہ داروں کو عہدے سنبھالنے کے مواقع ملنے چاہیئے۔ خدمات میں توسیع کو حکومت کے انعام کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ انتونی کمار تیواری کے علاوہ ایک اور منیجنگ ڈائرکٹر ہیں ان کی خدمات میں بھی دو سال کی توسیع کی گئی۔ منیجنگ ڈائرکٹر چلاسرینواس شیٹی کو 2023 میں دو سال کی توسیع دی گئی تب سے وہ منیجنگ ڈائرکٹر ہیں یعنی یہ ایس بی آئی کو چلانے والے 13 رکنی بورڈ کے تیسرے رکن ہیں جو خدمات میں توسیع پر ہیں۔ 13 ارکان کے بورڈ میں ایک ہی خاتون منیجنگ ڈائرکٹر ہیں اور وہ ہیں سواتی گپتا، ان کے بارے میں بینک نے لکھا ہے کہ وہ 2012 سے 2017 تک دہلی میونسپل کارپوریشن کی کونسلر اور زونل صدرنشین رہی ہیں۔ اس کے بعد 2017-2022 تک ایم سی ڈی کی ایجوکیشن کمیٹی کی رکن نامزد کی گئیں، بینک نے انہیں سماجی کارکن اور ماہر تعلیم کہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ کسی جماعت سے وابستہ رہی ہوں گی تب ہی تو کونسلر بنی تھیں اور یہ بھی نہیں کہ بینک نے ان کی تفصیلات میں ان کے سیاسی کیریئر کے بارے میں کیوں نہیں بتایا۔ اسٹیٹ بینک کی ڈائرکٹر سواتی گپتا اور دلشاد گارڈن بی جے پی کی عہدہ دار رہی سواتی گپتا کی تصاویر میں بہت زیادہ فرق نظر نہیں آتا ہے مگر پھر بھی ہم اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کہنا چاہتے کہ وہ بی جے پی سے ہی جڑی رہی ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر دلشاد گارڈن کی عہدہ دار رہی سواتی گپتا کی جو جانکاری ملتی ہے اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ ان کی سرگرمیاں بی جے پی کی طرف کی رہی ہیں۔ سواتی گپتا کی ایسی کئی تصاویر ہیں جن میں انہیں بی جے پی قائدین کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ ہمارا سوال ہے کہ بورڈ تک پہنچنے والے قابل لوگ ہوتے ہی ہوں گے پھر ان لوگوں نے 21 دنوں میں تفصیلات جمع کرنے کا منصوبہ کیوں نہیں بنایا۔