چھوٹے چھوٹے فروعی اختلاف کوبحث ومباحثہ کاموضوع بنانے کی بجائے ملت کے مشترکہ مسائل کے حل کی کوشش کریں

,

   

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیاکے اکتیسویں فقہی سیمینارکے افتتاحی اجلاس سے مولاناخالدسیف اللہ رحمانی ، مولاناسفیان قاسمی ودیگرعلمائے کرام کاخطاب

برہانپور کی معروف دینی درسگاہ دارالعلوم شیخ علی متقی میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے سہ روزہ سیمینار کا افتتاحی اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت دارالعلوم وقف دیوبند کے مہتمم مولانا محمد سفیان قاسمی صاحب نے کی، اس موقع پر اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے جنرل سیکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کلیدی خطبہ پیش فرمایا، انہوں نے اپنے کلیدی خطبہ میں اس بات پر زور دیا کہ مسلمانوں کے درمیان جو کچھ مسلکی اختلافات ہیں وہ فروعی مسائل میں ہیں، جو ایمان کی اساس اور نجات کا مدار نہیں ہیں اور ان میں ایک سے زائد آرا کی گنجائش ہے اور سلف صالحین میں دونوں نقطۂ نظر کے حاملین ہیں، اس لئے اپنے مسلک کے بارے میں شدت اور ایک رائے پر اصرار اور دوسرے نقطۂ نظر کی تغلیط سے بچنا چاہئے۔ ہندوستان کے اکابر علماء حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ اورعلامہ انورشاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے ان مسائل میں شدت برتنے اوران کوحق وباطل قرار دینے میں معیار بنانے سے منع کیاہے، اور ملک کے موجودہ حالات میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ملت اسلامیہ چھوٹے چھوٹے فروعی اختلافات کو بحث ومباحثہ کاموضوع نہ بنائے اورملت کے مشترک مسائل کے حل کے لئے کوششیں کی جائیں۔
مولانارحمانی نے اس پس منظر میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اکیڈمی نے اختلافی مسائل میں اعتدال، ایک دوسرے کی رائے کا تحمل اور اختلاف کے باوجود اتحاد کی ایک روایت قائم کی ہے، اور اس مزاج کو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے عام مسلمانوں میں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، اسی طرح اسلامک فقہ اکیڈمی نے طبقہ علماء کو ایک ساتھ آنے کا موقع فراہم کیا، اور اختلاف رائے کے باوجود ایک پلیٹ فارم پرجمع ہوکر ملت کے مشترکہ مسائل پر سر جوڑ کر بیٹھنے کی بہترین روایت قائم کی ہے۔
افتتاحی اجلاس کی صدارت دارالعلوم وقف دیوبند کے مہتمم مولانا سفیان قاسمی کررہے تھے، انہوں نے اپنے صدارتی خطاب میں دارالعلوم دیوبند کے قیام کے مقاصد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ دارالعلوم دیوبند کے قیام کا بنیادی مقصد ملت اسلامیہ ہندیہ کے دین وایمان کی حفاظت کرنا تھا، کیوں کہ بانی دارالعلوم حجۃ الاسلام حضرت نانوتوی کا ماننا تھا کہ اقتدار جانے کے بعد واپس آسکتاہے لیکن اگر ایمان چلا گیا توسب سے بڑی دولت ہی ختم ہوجائے گی، کچھ بھی نہیں بچے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلامک فقہ اکیڈمی کے قیام کے مقاصد میں بھی حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر بھی یہی تھا کہ آنے والا وقت ہندوستانی مسلمانوں کے لئے بہت دشوار کن ہونے والاہے، اسی لئے اس کی تیاری ابھی سے کرنی ہوگی اوراسی کے پیش نظر حضرت قاضی صاحب نے اکیڈمی کی بنیاد رکھی، یہ دراصل قاضی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ایمانی فراست تھی۔ مولانا قاسمی نے اخیر میں فرمایا کہ حکومتوں کی سرپرستی میں اکیڈمیاں اتنے وسیع پیمانے پرکام نہیں کرپاتی ہیں؛ لیکن اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا نے بے سروسامانی کے عالم میں اتنا بڑا کارنامہ انجام دیا ہے، جس کی نظیر ملنی مشکل ہے، اوریہ سب بانی اوران کے رفقاء کار کے اخلاص کا نتیجہ ہے۔
اکیڈمی کے سکریٹری مولانا عتیق احمد بستوی نے سیمینار کے موضوعات کا تعارف کراتے ہوئے علمائے کرام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آج ہمارا یہ حال ہوگیا ہے کہ ہم اپنے مسلک کو اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ گویا صرف ہمارا مسلک ہی حق ہے، بقیہ سب باطل ہے، اس سے ہمیں بچنا چاہئے بلکہ ہمیں تمام مذاہب کے ساتھ اعتدال کا رویہ رکھنا چاہئے، ہمیں اپنی تحریروں، تقریروں اورانداز درس غرض کہ ہرجگہ اعتدال کی راہ اپنانی چاہئے۔
اکیڈمی کے سینئر رکن اور خازن مفتی احمد دیولہ نے کہا کہ یہ جوکچھ رونقیں آج آپ دیکھ رہے ہیں یہ سب اکیڈمی کے بانی قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے اخلاص کانتیجہ ہے۔
جامعہ نظامیہ حیدرآباد کے سابق مفتی مولانا صادق محی الدین نے کہا کہ ہمیں مسلمانوں کے تمام طبقات کی فکر کرنے کی ضرورت ہے، بالخصوص ایسے نوجوان جوعصری اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور دین سے دور ہوجاتے ہیں ان کی فکر کرنا بہت ضروری ہے۔
جامعہ دارالسلام عمرآباد کے ڈاکٹر عبداللہ جولم نے برادران وطن میں دعوت دین پر زور دیا اور اس کی راہیں تلاش کرنے کے تعلق سے غوروفکر کی دعوت دی۔
جماعت اسلامی ہند کے شعبۂ اسلامی معاشرہ کے سکریٹری ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے کہاکہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کی اہمیت سے ہندوستان کے لوگ بھلے ہی کم واقف ہوں ، لیکن بیرون ممالک بالخصوص عالم عرب کی یونیورسیٹیوں میں ایم فل اورپی ایچ ڈی کے مقالوں میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے فیصلوں ، تجاویز اور قراردادوں کابہت احترام کیاجاتاہے اوران کاحوالہ بہت اہتمام کے ساتھ پیش کیاجاتاہے۔
مدھیہ پردیش کے معروف عالم دین مفتی جنید احمد فلاحی نے اکیڈمی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ برہانپور جیسے چھوٹے شہر کو سیمینارکے لئے منتخب کرنا یقینا برہانپور کے لئے فخرکی بات ہے۔
مولانا تصور حسین فلاحی اندوری نے سیمینار کے کامیاب انعقاد کے لئے دارالعلوم کے بانی وناظم مفتی رحمت اللہ قاسمی کو مبارکباد پیش کی۔
بھوپال سے تشریف لائے مفتی بھوپال مفتی ابوالکلام قاسمی نے کہا کہ برہانپور جیسے شہر میں جہاں ائیرپورٹ کی سہولت نہیں ہے، سیمینار کا انعقاد کرنا اور اکابر علماء کا تمام مشقتوں کو برداشت کرتے ہوئے اس سیمینار میں شرکت کرنا صرف اور صرف اکابر علماء کے اخلاص اور ملت اسلامیہ کے تئیں ان کی انتہائی فکرمندی کی دلیل ہے۔
واضح رہے کہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کا اکتیسواں سہ روزہ سیمینار مدھیہ پردیش کے تاریخی شہربرہانپور کے دارالعلوم شیخ علی متقی میں منعقدہورہاہے۔ یہ سیمینار7/نومبر تک چلے گا۔
5/نومبر کو اس کا افتتاحی اجلاس تھا، افتتاحی اجلاس کا آغاز دارالعلوم کے ایک طالب علم کی تلاوت قرآن مجید سے ہوا۔اس کے بعد نعت نبی کا نذرانہ بھی دارالعلوم شیخ علی متقی کے ایک طالب علم نے پیش کیا، اجلاس کی نظامت فقہ اکیڈمی کے رکن علمی مفتی صفدر زبیر ندوی نے کی۔
اس موقع پر دارالعلوم شیخ علی متقی کے بانی وناظم مفتی رحمت اللہ قاسمی نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا، جس میں انہوں نے دارالعلوم کا مختصر تعارف کراتے ہوئے دارالعلوم میں دوسرے سیمینار کے انعقاد پر اکیڈمی کے ذمہ داران بالخصوص مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی ملک بھر سے تشریف لائے ہوئے علمائے کرام کا بھی شکریہ اداکیا۔
اجلاس کے آغاز میں برہانپور کے ایم ایل اے ٹھاکر سریندر سنگھ نے علماء و مفتیان کرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے تو اپنی سرزمین پر آپ حضرات کا استقبال کرتا ہوں، اس کے بعد میں اسلامک فقہ اکیڈمی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ دیش کے لوگوں کو صحیح طور پر زندگی گذارنے کا طریقہ سکھاتا ہے، آپ لوگ تعلیم کے میدان میں کام کررہے ہیں، یقینادیش تعلیم یافتہ ہوگا تبھی دیش کی جمہوریت مضبوط ہوگی۔ خاص بات یہ رہی کہ ٹھاکر سریندر سنگھ نے اپنی گفتگو کا آغاز سلام سے کیا، درمیان میں بات بات پران شاء اللہ بھی کہتے رہے اور آخر میں خدا حافظ کہہ کر اپنا بیان ختم کیا۔
اس موقع پر کانگریس ضلع صدر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسا پروگرام ہے جو دین کی باتوں کے ساتھ ساتھ ملک میں امن وامان کیسے قائم کریں، بھائی چارہ کیسے فروغ دیں، وہ بھی ہمیں سکھاتاہے، جس طرح علمائے دین نے دیش کو آزاد کرانے میں اپنی قربانی دی، اس وقت ضرورت ہے کی علمائے دین دیش میں بھائی چارہ قائم کرنے اور نفرت کے سیلاب کو روکنے کے لئے بھی آگے آئیں۔
اجلاس کے اخیر میں اکیڈمی کی چند اہم مطبوعات کا رسم اجرا بھی کیا گیا۔اکیڈمی کے رکن علمی مفتی احمد نادر القاسمی کی مرتب کردہ کتاب ‘رویت ہلال سے متعلق چند اہم مسائل’ کا رسم اجرا مفتی صادق محی الدین کے ہاتھوں ہوا، مفتی امتیاز احمد قاسمی کی مرتب کردہ کتاب ‘محرم کے بغیر سفر’ کا رسم اجرا مولانا عتیق احمد بستوی کے ہاتھوں ہوا، کورونا وبا سے متعلق مفتی احمد نادر القاسمی کی مرتب کردہ کتاب کارسم اجرا مولاناسفیان قاسمی کے ہاتھوں عمل میں آیا، اسی طرح سوشل میڈیا کے مسائل پرمفتی امتیاز احمدقاسمی کی مرتب کردہ کتاب کارسم اجرا مفتی احمد دیولہ نے کیا، اکیڈمی کے تعارف پرمشتمل عربی مجلہ مرتب کردہ مولانا صفدر زبیر ندوی کا رسم اجرا ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی کے ہاتھوں ہوا، مفتی جمیل اختر جلیلی کی مرتب کردہ کتاب ‘حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کی عمر’ کا رسم اجرا ڈاکٹر عبداللہ جولم نے کیا۔ جب کہ مفتی صابر حسین ندوی کی دو کتاب ‘فقہ مقارن’ اور ‘مقاصد شریعت’ کارسم اجرا قاری ظفر الاسلام کے ہاتھوں عمل میں آیا۔
اس موقع پر مقامی سماجی، ملی وسیاسی شخصیات کاشال اڑھاکر استقبال بھی کیاگیا۔ اخیرمیں صدر محترم مولانا سفیان احمد قاسمی کی دعا پراجلاس کا اختتام ہوا۔