چیف منسٹر بننے کا 2009 میں ہی ذ ہن بنالیا تھا

   

ریونت ریڈی کا انٹرویو

چیف منسٹر تلنگانہ مسٹر اے ریونت ریڈی کا ایک ٹی وی انٹرویو آج کل بہت زیادہ وائرل ہوا ہے جس میں انہوں نے رجت شرما کے مختلف سوالات پر برجستہ جوابات دیئے ہیں۔ اس کے اقتباسات قارئین کی دلچسپی کیلئے پیش کئے جارہے ہیں۔
سوال: آپ کی انٹری پر ہم نے ایک تلگو گانا بجایا تھا ایک بار پھر سے سن لیجئے۔ آخر اس کا مطلب کیا ہے۔
جواب: تلگو زبان آپ کو تھوڑی بہت سیکھنی پڑتی ہے۔ تلگو جاننے سے تلنگانہ کے عوام کی دل کی دھڑکن کیا ہے آپ کو پتہ چلتا ہے۔ اس گانے کا مطلب یہ ہیکہ تلنگانہ کا جھنڈا لیکر ایک نوجوان نکل پڑا ہے اس کا نام ریونت انا ہے۔ انا کا مطلب بھائی تو کانگریس کیڈر کو متحرک کرنے ان میں ایک نیا عزم و حوصلہ پیدا کرنے اور عوام میں حکومت کے خلاف کیا احساسات ہیں، لوگ کیا ترقی کرنا چاہ رہے ہیں۔ گانا تیار کیا گیا اور مشورہ دیا گیا کہ پدیاترا میں یہ بجاؤ، پرینکا گاندھی اور راہول جی نے بھی اس پر ڈانس کیا۔
سوال : آپ پر پہلا الزام یہ ہیکہ آپ من مانی کرتے ہیں۔ ہم نے آپ کے بچپن کا پس منظر دیکھا۔ پڑھائی میں اچھے تھے۔ ٹاپر تھے۔ گھر والے خوش رہتے تھے۔ والد بھی پولیس پردھان تھے۔ دبدبہ تھا۔ تب سے لیکر میں یہ کروں وہ کروں میری مرضی! جو چاہتے ہیں وہ کرتے ہیں۔
جواب: ایسا ضروری ہے۔ اگر آپ کو ترقی کرنا ہے تو ہم وہی کریں جو سوچیں۔ تب ہی کامیاب ہوں گے۔ اس لئے میں نے جو سوچا، من مانی سے کام کیا۔ تب کہیں جاکر چیف منسٹر بن سکا ورنہ میں بھی کسی سرکاری محکمہ کا ملازم ہوتا یا پھر ہمارے رشتہ دار دوست سارے یو ایس میں ہیں میں بھی سافٹ ویر انجینئر یا کچھ بن کر کام کرتا۔
سوال : کیا یہ سچ نہیں کہ بچپن میں شرارتیں بھی بہت کرتے تھے اور پکڑے بھی نہیں جاتے تھے۔
جواب: ابھی پکڑا نہیں گیا ایسے میں شرارت کیا کیسے کہہ سکتا ہوں میں، پکڑے گئے تو پتہ چلتا تھا کہ ہم نے شرارت کی۔
سوال : بہت ساری چیزیں آپ کی من مانی کی دکھائی دیتی ہیں۔ آپ کی ماں قدیم آبائی مکان میں رہنا چاہتی تھیں۔ 300 سال پرانا گھر تھا آپ نے اس کو منہدم کرادیا ماں کو بتایا نہیں۔ انہیں حیدرآباد بلا کر یہ کام کیا؟
جواب: وہ ہمارا بہت ہی پرانا گھر تھا۔ دادا پردادا کا گھر گاؤں کا سب سے بڑا گھر۔ ہم لوگ سات بھائی اور ایک بہن۔ ہم سات بھائیوں میں سے کچھ لوگ امریکہ چلے گئے، کچھ لوگ حیدرآباد منتقل ہوگئے۔ گاؤں میں ماں اکیلی تھیں۔ مطلب گھر پرانا ہوگیا تھا ماں کا کہنا تھا کہ جتنی مابقی زندگی ہے اسی گھر میں گذاریں گی۔ میں نے انہیں حیدرآباد بلایا جے سی بی بھیج کر پورا گھر منہدم کردیا۔ ایک ہفتہ کے بعد جب ماں کو پتہ چلا تو انہیں نے بہت غصہ کیا۔
سوال: جب محبت کی آپ نے تو ہم نے سنا کہ انٹر کالج میں لڑکی کو Impressed کرنے کیلئے پورا دم لگادیا تھا۔
جواب: لو میریج کرنا ہے تو کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑتا ہے۔
سوال: لیکن ہم نے سنا کہ لڑکی کے والدین راضی نہیں تھے اور آپ سے بچانے کیلئے لڑکی کو انہوں نے دہلی بھیج دیا تھا۔
جواب: دہلی کہاں دور ہے سات سمندر پار بھی رہا تو آج کل ادھر جارہے ہیں ان لوگوں نے لڑکی کو دہلی بھیج دیا میں بھی دہلی آیا تب ہی پہلی مرتبہ دہلی کو دیکھا پھر آپ آج بلائے۔
سوال: تو پھر شادی کیسے کی
جواب: لو میریج کم ارینج میریج کی۔ ہم نے Love کیا اور ان لوگوں نے شادی Arrange کی۔
سوال: آپ کا پس منظر دیکھیں تو آپ اچھے مقرر ہیں، مصور ہیں، رائٹر ہیں، مفکر ہیں تو سیاست میں کیوں آگئے۔
جواب: سیاست میں آنا ضروری تھا۔ میرے بڑے بھائی پولیس ڈپارٹمنٹ میں کام کرتے تھے۔ ہمارے گاؤں کے بارے میں تو آپ کو اچھی طرح معلوم ہے۔ ہمارا گاؤں ایک ایسا گاؤں ہے جس کی آبادی 2000 ہے۔ ہمارا گاؤں ایک گروہ واری گاؤں Faction Village ہے۔ مطلب گاؤں میں ہمیشہ مارپیٹ، قتل و غارت گری رہی ہے۔ والد کو بھی قتل کیس میں سیشن کورٹ نے خاطی قرار دیا۔ اس کے بعد ہائیکورٹ میں بری ہوگئے۔ وہ بات الگ ہے کیس غلط تھا۔ میرے بھائی کو ایک پولیس آفیسر نے کہا تھا کہ ارے یہ گاؤں سدھارنا ہے تو ان کو گاؤں سے باہر نکالنا ہے۔ تیس چالیس سال سے گاؤں میں کوئی سکون سے سویا نہیں لہٰذا ہمارے بڑے بھائی کو نکال کر محکمہ پولیس میں بھرتی کیا کانسٹیبل کی حیثیت سے۔ ہمارا خاندان بڑے زمینداروں کا خاندان قابل احترام خاندان ہے اور اس خاندان سے کوئی بندہ پولیس ڈپارٹمنٹ میں جاتا ہے اور وہ بھی کانسٹیبل کی حیثیت سے جوائن ہوتا بری بات ہے۔ بہت سارے وہ رشتہ دار بھی ہمارے گھر آتے نہیں تھے کہ یہ لوگ چھوٹی نوکری کرتے ہیں۔ ہمارے بھائی کی یہ سوچ تھی کہ ان تمام لوگوں سے اپنی بات منوانا ہے تو سیاست میں آنا ہی ہے۔ سیاست سے ہم سب کچھ کرسکتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ بنیں۔
سوال: کیا کبھی سوچا تھا کہ چیف منسٹر بن جائیں گے؟
جواب: سال 2009ء میں ہی میں نے چیف منسٹر بننے کے بارے میں سوچا تھا۔ میرا سوچنا تھا کہ علحدہ تلنگانہ کی تشکیل عمل میں آئے گی اور اس کی تشکیل کے بعد میں چیف منسٹر بنوں گا۔ اس سے پہلے تو لیڈر بننے کی کوشش کیا۔ آج تو ہمارے بڑے بھائی نہیں ہے میں نے سوچا تھا کہ سیاست کرنی ہے۔
سوال: اتنی پراعتمادی کہاں سے آگئی کہ میں چیف منسٹر بن جاؤں گا۔
جواب: ہماری سوچ ہمیشہ واضح رہی صاف رہی۔ چندرا بابو نائیڈو چیف منسٹر بن سکتے ہیں، وائی ایس راج شیکھر ریڈی چیف منسٹر بن سکتے ہیں، میں کیوں نہیں بن سکتا؟ وہ بھی میڈل کلاس کے تھے۔ وہ بھی کسان خاندانوں سے آئے تو پھر ہم کیوں چیف منسٹر نہیں بن سکتے۔
سوال: دیکھئے زیادہ تر لوگ سیاست میں آتے ہیں پیسہ کمانے کیلئے آپ ہیں کہ اپنا گھر پھونک کر تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ ہم نے سنا ہے کہ جائیداد فروخت کرکے الیکشن لڑا۔
جواب: کچھ پانے کیلئے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ جائیدادیںب ہت ساری خرید سکتے ہیں مگر سیاست میں ایک بار شکست ہوگئی تو سمجھو سب کچھ گیا۔ پراپرٹی گئی تو کیا فرق پڑتا۔
سوال: لیکن آپ کی بیوی تیار تھیں کہ 1500 کروڑ روپئے کی جائیداد فروخت کرڈالو اور الیکشن لڑو!
جواب: سب کچھ بیوی کو بتا کر کرنے سے کچھ نہیں ہوتا کبھی کبھی کرنے کے بعد بتانے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔
سوال: تو آپ کی یہ عادت ہے کہ ماں کو بتائے بناء کیا بیوی کو بتائے بنا کیا؟
جواب: اب کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ ہم کرنے کے بعد ہی دکھا سکتے ہیں بتا سکتے ہیں۔ سب کیلئے اجازت لینا اتنا آسان نہیں اس سے اجازت تھوڑی ملے گی۔
سوال: آپ کے بارے میں اسدالدین اویسی کا بیان آپ کے بارے میں میں پڑھ رہا تھا وہ آپ کو کہتے ہیں کہ یہ آر ایس ایس انا ہے۔ یہ کانگریسی نہیں ہے اصلی آر ایس ایس نیکر والے ہیں۔
جواب: میں پہلے ہی کہا تھا کہ Liquor party اور نیکر پارٹی یعنی بی آر ایس اور بی جے پی دونوں ایک ہوگئے ہیں ان دونوں کو ملانے والے ہیں اسدالدین اویسی جی کیونکہ ہمیشہ توازن کو برقرار رکھنے میں اسد اویسی لگاتار کوشش کرتے تھے میں نے کبھی نہیں چھپایا کہ میں ودیارتھی پریشد میں کام کیا تھا۔ اے بی وی پی کی سیاست میں ہم بہت سرگرم تھے۔ اس کے بعد بزنس میں چلا گیا۔ بزنس کے بعد میں نے زیڈ پی ٹی سی رکن کیلئے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑا اور کامیاب ہوا۔ جون 2006ء میں زیڈ پی ٹی سی جیتا۔ جون 2007ء میں ایم ایل سی آزاد امیدوار کی حیثیت سے جیت لیا جبکہ ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی کی حکومت تھی۔ میرے خاندان میں بہت سارے لوگ وزیر بھی تھے۔ سب کے خلاف الیکشن لڑ کر میں ایم ایل سی بنا۔ جون 2009ء میں پہلی مرتبہ ایم ایل اے بنا۔ جون 2014ء میں دوسری مرتبہ ایم ایل اے بنا۔ جون 2019ء کو میں ایم پی بنا۔ ہندوستان کے سب سے بڑے پارلیمانی حلقہ ملکاجگری سے میرا انتخاب عمل میں آیا۔ امیت شاہ جی مودی جی کے حلقوں کو بھی ملائیں تب بھی میرا حلقہ بہت بڑا ہے۔ میرے حلقہ میں 35 لاکھ رائے دہندے ہیں۔ ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے سب سے بڑے پارلیمانی حلقہ کی میں نے نمائندگی کی تو ہر جگہ میں نے چوری چھپے کام نہیں کیا۔ جس دن مجھے کانگریس میں شامل ہونے کیلئے راہول جی نے بلایا تھا اس دن میں نے اپنے سیاسی پس منظر سے انہیں واقف کروایا۔ یہ بھی بتایا کہ چندرا بابو نائیڈو کی پارٹی میں شامل ہوا۔ اپوزیشن پارٹی میں گیا کوئی پاور پالیٹکس میں نہیں گیا۔ اسد اویسی جی کو مجھے ہرانے کیلئے کچھ بہانہ نہیں ملا تھا۔ مسلم نوجوان میرے ساتھ کام کررہے تھے۔ وہ اسد اویسی پر یقین نہ کئے۔ میں نے راہول جی کی بھارت جوڑو یاترا کو پرانے شہر میں لایا۔ ان لوگوں نے بہت کوشش کی کہ پرانا شہر میں یاترا آئی تو ہم یہ کرلیں گے وہ کرلیں گے میں نے کہا کہ چارمینار کے دامن میں کھڑے ہوکر ترنگا لہرائیں گے۔ راہول جی آئیں گے اگر ہمت ہے تو روکنے کی کوشش کرو۔ میں نے دو لاکھ لوگوں کو چارمینار کے دامن میں جمع کیا۔ میں نے ببانگ دہل بولکر کیا۔ وہ اتنی غلط فہمی پھیلا کر رکھا ہے کہ پرانے شہر میں کوئی نہیں آ سکتا۔ کسی کو نہیں آنے دیں گے۔ اولڈ سٹی ہمارا اڈہ ہے۔ مطلب پارلیمانی حلقہ حیدرآباد۔ میں نے کہا کہ یہ حیدرآباد شہر ہمارا ہے۔ ہم نے اسے محنت سے بنایا ہے۔ ہمارے شہر میں آپ کون ہوتے ہیں روکو روک کر دیکھو میںنے چارمینار پر اس مقام پر راہول جی سے جھنڈا لہرانے لگایا جہاں راجیو گاندھی نے جھنڈا لہرایا تھا۔ پرانا شہر میں 15 کیلو میٹر تک یاترا نکالی۔ تب اسد اویسی کو یہ خوف کھانے لگا کہ سب کو میں ڈرا سکتا ہوں یہ کیوں نہیں ڈر رہا ہے؟
سوال: آپ نے بھی ڈرادیا آپ نے بھی کہا کہ شیروانی کے نیچے بھی نیکر ہے۔
جواب: میں نے بہت کچھ کہا آپ کو کیا بتاؤں۔ شیروانی کے نیچے نیکر ہے پاجامہ نہیں ہے کہا تھا میں نے۔
سوال: راہول گاندھی کے بارے میں عام تاثر یہ ہیکہ وہ کسی سے ملتے نہیں کسی سے زیادہ بات نہیں کرتے آپ نے راہول گاندھی کا دل کیسے جیت لیا۔
جواب: راہول گاندھی جی کے بارے میں جہاں تک میرا نقطہ نظر ہے وہ یہ کہ راہول جی سے مل کر 99 فیصد لوگ کچھ نہ کچھ حاصل کرکے لے جانا چاہتے ہیں درخواست لیکر جاتے ہیں، بھائی مجھے صدر پردیش کانگریس کا عہدہ چاہئے۔ سکریٹری ہونا۔ چیف منسٹر کا عہدہ ہونا۔ ڈپٹی چیف منسٹرکا عہدہ چاہئے۔ دومنٹ کے بعد انہیں سمجھنے آتا ہے کہ وہ کیا ایجنڈہ لیکر آیا ہے۔ شخصی معاملہ ہوتا ہے تو یہ کہہ کر روانہ کردیتے ہیں کہ ٹھیک ہے میں دیکھوں گا اگر عوام کے مفاد کی بات ہو تو کچھ پالیسی کچھ پارٹی کے پروگرام لیکر جائیں تو راہول جی سننے کیلئے تیار ہیں۔ میری پہلی ملاقات دس منٹ کیلئے ہوئی۔ میں گیا سب کی طرح مجھے بھی پارٹی میں کچھ پوزیشن کیلئے آئے بولکر سمجھا تھا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا آپ کیا لینا چاہ رہے ہیں میں نے کہا کہ آگے 25 سال آپ کے ساتھ چلنا ہے۔ ابھی کیا پوچھ کر لوں کچھ کہنے نہیں آیا اگر آگے ہمیں ساتھ چلنا ہے تو یہ پروگرام لیکر چلنا ہے۔ اگر یہ پالیسی لیکر چلیں تو آگے کامیابی مل سکتی ہے۔ پارٹی کے بارے میں میرے پاس آئیڈیاز تھے۔ میرا مشاہدات میں نے انہیں بتایا۔ دس منٹ کی میٹنگ دیڑھ گھنٹے کی ہوگئی۔
سوال: آخر آپ نے کانگریس کا انتخاب کیوں کیا۔ چاہے تو آپ بی آر ایس اور بی جے پی میں بھی جاسکتے تھے۔ حالانکہ کانگریس میں اُس وقت کوئی دم نہیں تھا۔
جواب: جب میں چندرا بابو نائیڈو کی پارٹی میں تھا وہ پارٹی ریاست اور مرکز میں برسراقتدار تھی۔ نائیڈو پارٹی کے ایم پیز وزراء بھی تھے۔ اگر چاہے تو میں راجیہ سبھا جاکر مرکزی وزیر بھی بن سکتا تھا مگر تلنگانہ کے عوام کیلئے لڑنے والا کوئی نہیں تھا میں ڈی این اے مسئلہ کی وجہ سے TDP چھوڑا۔ آگے مجھے کے سی آر سے لڑنا ہے۔ کانگریس پلیٹ فارم سے مجھے لڑنا ہے۔ عوام کی طرف سے لڑنا چاہ رہا تھا۔ میں نیتا لیڈر بننا چاہ رہا تھا۔ لیڈر بننا ہے تو پلیٹ فارم چاہئے اور عوام کی آواز بننا ہے تلنگانہ کے چار کروڑ عوام کیلئے کچھ کرنا چاہ رہا تھا۔ اس لئے کانگریس پلیٹ فارم کو اختیار کیا۔