چیف منسٹر یوپی کی فرقہ پرستی

   

وہ جرم جس سے کوئی انقلاب برپا ہو
وہ اک گناہ سہی ایک بار تم بھی کرو
چیف منسٹر یوپی کی فرقہ پرستی
اترپردیش کے چیف منسٹر آدتیہ ناتھ نے ایک ریاستی حکومت کے سربراہ ہوتے ہوئے بھی اپنے دستوری فرائض و ذمہ داریوں کی پرواہ کئے بغیر ایک بار پھر نفرت انگیز یا فرقہ پرستانہ بیان دیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایودھیا میں رام مندر کے بھومی پوجن میں تو بحیثیت ایک ہندو شریک ہوئے ہیں لیکن اگر مسجد کی تعمیر کے کاموں کا آغاز کرنے انہیں مدعو کیا جاتا ہے تو وہ اس میں شرکت نہیں کرینگے۔ یہ بیان آدتیہ ناتھ کیلئے کوئی نیا نہیںہے وہ اس طرح کے بے شمار بیانات دے چکے ہیں۔ وہ ہندو ۔ مسلم کی سیاست کی ہی پیداوار ہیں اور اسی سیاست سے انہوں نے عروج بھی حاصل کیا ہے ۔ نفر ت کی سیاست کے چمپئن ہونے کے ساتھ وہ جذباتی استحصال میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ انہوں نے مسلم خواتین کو قبور سے نکال کر عصمت ریزی کرنے جیسے رکیک ریمارکس بھی کئے تھے اور ان کی انتہائی شدت پسندانہ فرقہ پرستی کی وجہ سے ہی انہیں اترپردیش کی وزارت اعلی کا انعام دیا گیا تھا ۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کو اسی طرح کے قائدین کی ضرورت ہے اور اسی طرح کی اشتعال انگیزیوں اور فرقہ پرستانہ ریشہ دوانیوں نے بی جے پی کو عروج بخشا ہے اور بی جے پی ملک میں دوسری معیاد کیلئے اپنے بل پر حکمرانی کرنے کے موقف میں آئی ہے ۔ فرقہ پرست تنظیموں کا قیام ہو یا پھر مسلمانوں کے خلاف انتہائی رکیک اور نازیبا ریمارکس ہوں یا پھر دھمکی آمیز زبان ہوں یہ آدتیہ ناتھ کی شخصی رائے تھی اور ان کی ذہنیت کو ظاہر کرتی تھی ۔ تاہم اب آدتیہ ناتھ محض ایک فرد نہیں بلکہ ملک کی سب سے بڑی ریاست کے چیف منسٹر اور سربراہ حکومت ہیں۔ انہوں نے دستور ہند کے نام پر حلف لیا ہے اور دستور نے مذہب کی بنیاد پر کسی طرح کے امتیاز اور بھید بھاو کی مخالفت کی ہے ۔ دستور ہند نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور حکومت کسی مذہب کی تائید و حمایت یا سرپرستی نہیں کرسکتی ۔ آدتیہ ناتھ نے اترپردیش کی وزارت اعلی پر فائز ہوتے ہوئے ایک مندر کی تعمیر کے بھومی پوجن میں شرکت کی اور عوامی سطح پرا س تقریب کا اہتمام کیا گا تھا حالانکہ ملک میں کورونا کی وباء شدت کے ساتھ پھیلی ہوئی ہے۔
اس کے بعد وہ ایک مسجد کی تعمیر کیلئے اگر کوئی تقریب ہوتی ہے تو اس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنی قدیم روش کا اظہار کر رہے ہیں ۔ آدتیہ ناتھ اس بیان بازی کے ذریعہ بھی اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ کسی تقریب میں شرکت نہ بھی کرنا چاہیں تو اس پر اس طرح کی فرقہ پرستانہ روش اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ وہ کسی سرکاری مصروفیت کی وجہ سے عدم شرکت کا فیصلہ کرسکتے ہیں لیکن انہوں نے قبل از وقت ہی ‘ جبکہ ابھی مسجد کی تعمیر کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے اور نہ ہی انہیں مدعو کیا گیا ہے ‘ ایسی کسی امکانی تقریب میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کردیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ بحیثیت چیف منسٹر انہیں کسی مذہب یا برادری سے کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن بحیثیت ہندو اور ایک یوگی وہ مسجد کی تعمیر کے موقع پر شرکت نہیں کرسکتے ۔ آدتیہ ناتھ کو یہ سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ انہیں اب کسی ہندو یا کسی یوگی کی حیثیت سے کہیں مدعو نہیں کیا جاتا ۔ اگر کہیں انہیں مدعو کیا جاتا ہے تو کسی چیف منسٹر کی حیثیت سے ہی مدعو کیا جاتا ہے اور وہ شرکت کرنے یا نہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں لیکن ریاستی حکومت کے سربراہ ہوتے ہوئے اور دستور کے نام پر حلف لینے کے باوجود ا س طرح کی متعصب سوچ اور منفی نظریہ کا سر عام اظہار کرنا اور اس پر فخر کا اظہار بھی کرنا انتہائی معیوب عمل ہے لیکن آدتیہ ناتھ اور ان کی سوچ اس کو قبول نہیں کرے گی ۔
جو اطلاعات ہیں ان کے مطابق تو پہلے مسجد کی تعمیر ہی ہونے والی نہیں ہے اور جو اراضی سپریم کورٹ نے الاٹ کی ہے اس پر دواخانہ تعمیر کرنے کا فیصلہ شائد کیا گیا ہے ۔ کسی قطعی صورتحال کے بغیر صرف اپنی منفی سوچ کی تشہیر کیلئے اس طرح کی بیان بازی سے آدتیہ ناتھ کو گریز کرنے کی ضرورت تھی لیکن انہوں نے حکومت کے سربراہ ہونے کا بھی لحاظ رکھنا گوارہ نہیں کیا ۔ اس ملک میں دستور نے ہر شہری کو اس کے مذہبی حقوق دئے ہیں اور اسے آزادی دی ہے کہ وہ چاہے جس مذہب کی پیروی کرے لیکن سرکاری طور پر کسی مذہب کی سرپرستی نہیں ہوسکتی یہ بات دستور نے کہی ہے اور اس کا اطلاق سبھی پر ہونا چاہئے ۔
اداکار کی موت پر سیاست !
بالی ووڈ کے اداکار سشانت سنگھ راجپوت کی موت پر بھی کچھ گوشوں کی جانب سے سیاسی روٹیاں سینکنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ایک اداکار کی موت ملک کا نقصان ہے ۔ اس کے افراد خاندان کیلئے ایک بڑا صدمہ ہے اور اسی صدمہ کا استحصال کرتے ہوئے ایسے پہلووں کو بھی عوامی دائرہ میں لایا جا رہا ہے جن پر مباحث کرنا فضول ہی ہوتا ہے ۔ سشانت سنگھ راجپوت ایک نوجوان اور چہیتا اداکار تھے ۔ اس کا مستقبل بہت تابناک ہوسکتا تھا تاہم رپورٹس کے مطابق اس نے خود کشی کرلی ۔ ہر خود کشی کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے ۔ سشانت سنگھ کی موت کی بھی کوئی نہ کوئی وجہ ہوسکتی ہے اور اس کی تحقیقات کرنا اور سچائی کو منظر عام پر لانا تحقیقاتی ایجنسیوں اور پولیس کا کام ہے ۔ اس میں سیاست کرنا انتہائی مذموم فعل ہوسکتا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ ایک نوجوان اداکار کی موت پر بھی سیاست کی جا رہی ہے ۔ اس کے افراد خاندان پر کیا بیت رہی ہوگی اس کا کسی کو خیال نہیں ہے ۔ اس موت کو بہار انتخابات کے پیش نظر ہوا دی جا رہی ہے ۔ سشانت کا تعلق بہار سے تھا ۔ اسی وجہ سے اس مسئلہ کو ہوا دی جا رہی ہے جبکہ اخلاقی طور پر یہ انتہائی نا مناسب اور مذموم فعل ہے ۔ اس سے گریز کیا جانا چاہئے ۔