چین کی آسمانی آنکھ: دنیا کی سب سے بڑی ٹیلی سکوپ یا خلائی دوربین

   

جنوبی چین میں پہاڑوں کے درمیان دھات کی بڑی پیالہ نما چیز کا رُخ آسمان کی طرف ہے۔یہ دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور ریڈیو ٹیلی سکوپ یا خلائی دوربین ہے۔ 12 جنوری سے اس کا استعمال شروع کر دیا گیا ہے۔اسے فاسٹ ٹیلی سکوپ کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس کا قطر 500 میٹر ہے۔ چین نے اسے اپنی ’آسمانی آنکھ‘ کا نام دیا ہے۔
خلائی دوربین کا کیا کام ہے؟
فاسٹ دوربین کی مدد سے کائنات کے کونے کونے میں کئی چھپی چیزوں کی کھوج کی جاسکتی ہے۔ اس سے کائنات کے وجود اور کسی دوسری جاندار مخلوق کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکتی ہے۔یہ ٹیلی سکوپ اتنی بڑی ہے کہ دنیا میں دوسرے نمبر پر سب سے بڑی خلائی دوبین آرسیبو آبزرویٹری شاید اس کے اندر سما سکے۔ پیورٹو ریکو میں موجود اس ٹیلی سکوپ کا قطر 305 میٹر ہے۔چین نے ستاروں، کہکشاؤں اور شاید غیر مرئی دنیا یعنی خلا کے پوشیدہ رازوں کے سگنل کی تلاش کے لیے اس دوربین کی تعمیر کا آغاز ستمبر 2016 میں کیا گیا تھا لیکن 1990 کی دہائی میں اس پر کام شروع ہوگیا تھا۔ اس کی تعمیر میں تقریباً دو دہائیاں لگی تھیں۔فاسٹ صرف ایک بڑا آلہ نہیں بلکہ دنیا میں موجود کسی بھی ریڈیو ٹیلی سکوپ کے مقابلے میں ڈھائی گنا زیادہ طاقتور ہے۔سنہ 2016 میں اسے پہلی بار آزمایہ گیا تھا۔
فاسٹ ٹیلی سکوپ کا مشن کیا ہے؟
اسے بنانے والوں کو امید ہے کہ ٹیلی سکوپ جب ریڈیو سگنلز کو پکڑے گی اس سے کائنات کے ارتقائی عمل کی بنیاد اور اس سے جڑے سوالات کے جواب مل جائیں گے۔اس کا مرکزی کام خلا میں کششِ ثقل کی لہروں کی تلاش ہوگا۔ یہ تاریک مادے کا جائزہ لے گی اور خارج الارض کے ممکنہ سگنلز کی تحقیقات کرے گی۔سائنسدان اس بات میں بھی دلچسپی لیتے ہیں کہ اس دوربین کے ذریعے ایف آر بی سنگل پکڑے جاسکتے ہیں۔ یہ ایسے ریڈیو سگنل ہیں جن کی جانچ محض کچھ ملی سکینڈز تک کی جاسکتی ہے۔ماہر فلکیات اب تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ ایف آر بی کہاں سے خارج ہوتی ہیں اس لیے اس معاملے پر کوئی بھی نئی معلومات کے بارے میں جاننا سائنسدانوں کے لیے ایک بڑی پیش رفت ہوگی۔یونیورسٹی آف کینیڈا میں آسٹرو فزیکس کی ماہر وکٹوریا کاسپی کہتی ہیں: ’باریک ایف آر بی سمجھنے کے لیے فاسٹ ایک بہترین آلہ ثابت ہوگا۔‘ ’شعاعیں خارج کیسے ہوتی ہیں ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملے گی اور شاید ان کی بنیاد کے بارے میں بھی علم ہوجائے گا۔‘فاسٹ ٹیلی سکوپ میں صلاحیت ہے کہ وہ آرسیبو ٹیلی سکوپ کے مقابلے دگنے رقبہ میں ریڈیو سگنل پکڑ سکتی ہے۔یونیورسٹی آف میساچوسٹس میں فلکیات کی پروفیسر من یون نے بی بی سی کو بتایا کہ: ’کائنات میں کازمک سنگل ڈھونڈنے میں فاسٹ ہماری صلاحیت کو کافی بہتر بنا دیتی ہے۔ یہ سنگل بہت کمزور ہوتے ہیں اور انھیں کھوجنا مشکل ہوتا ہے۔‘اس کی آزمائش کے دوران فاسٹ نے 102 نئے پلسرز کی نشاندہی کی تھی۔ پلسر سے مراد ایسے گھومنے والے ستارے ہیں جو باقاعدہ اوقات کے ساتھ شعاعیں خارج کرتے ہیں۔یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا میں بل مخاچن ایک آیسٹرو فزیکس کے ماہر ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ کامیابی ’متاثرکن‘ ہے۔’یہ معلوم کرنا دلچسپ ہوگا کہ نئی دریافتوں کی خصوصیات کیا ہیں۔‘سائسدان اس حوالے سے بھی پرجوش ہیں کہ فاسٹ سے وہ ہائیڈروجن جیسی خلائی گیسوں کا معائنہ کر سکیں گے۔ اس سے کائنات کی خصوصیات کے بارے میں معلومات لی جاسکے گی۔
چین کی ’آسمانی آنکھ‘ کی قیمت کیا ہے؟
فاسٹ ٹیلی سکوپ کو چین کے جنوبی صوبے گیزو کے سبز و شاداب اور خوبصورت علاقے پن ٹینگ میں قائم کیا گیا ہے اور اس پر لگ بھگ 18 کروڑ ڈالر کی لاگت آئی ہے۔اس میں ایلومینیم کے 4400 پینل ہوتے ہیں جو آسمان پر مختلف جگہوں پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے حرکت کرتے ہیں۔کورنیل یونیورسٹی میں ماہر فلکیات مارتھا ہائنز کے مطابق یہی صلاحیت فاسٹ ٹیلی سکوپ کو آرسیبو کے مقابلے میں زیادہ موثر بناتی ہے۔ہائنز نے بتایا: ’آرسیبو کے پینل اس طرح دوبارہ اپنی جگہ پر نہیں آسکتے۔‘فاسٹ دوربین میں آپٹیکل نظام کی مدد سے آسمان کے وسیع علاقے کو دیکھا جاسکتا ہے۔ ان میں سے کچھ علاقے فی الحال آرسیبو سے نہیں دیکھے جاسکتے۔‘یونیورسٹی آف بیجنگ میں فلکیات کے انسٹی ٹیوٹ کے مطابق دوسری ریڈیو ٹیلی سکوپس کے مقابلے میں چین کی ’آسمانی آنکھ‘ زیادہ دور تک دیکھ سکتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ مزید سیارے یا ستارے دریافت کر سکتی ہے اور اس سے کائنات کے راز یا کسی جاندار مخلوق کے بارے میں معلومات مل سکتی ہے۔