چین کی دراندازی حکومت بے خبر

   

پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر داخلہ

چند سیاسی مبصرین کا ایقان ہے کہ مودی حکومت، چینی پی ایل اے فورسیس کی ہندوستانی علاقوں میں دراندازی کی ذلت کو کبھی برداشت نہیں کرے گی۔ واضح رہے کہ مارچ ۔ اپریل 2020ء میں چینی فورس نے یہ دراندازی کرتے ہوئے اپنے ناپاک عزائم و اِرادوں کا اظہار کیا تھا اور اس بارے میں راقم الحروف نے ’’انڈین ایکسپریس‘‘ کی اشاعت مورخہ 31 جولائی 2022ء میں ایک مضمون بھی تحریر کیا تھا جس کا عنوان ’’دی ڈرائیگن اِن دی روم‘‘ تھا۔روزنامہ ’سیاست ‘میں بھی یہ مضمون شائع ہوا تھا۔
یہ بات وزیراعظم نریندر مودی کیلئے سمجھنا ضروری تھی کہ صدر ژی جن پنگ کے حقیقی عزائم و ارادے کیا ہیں۔ 11 اکتوبر 2019ء کو جنوبی ہند کی ریاست ٹاملناڈو کے منگلا پورم میں وزیراعظم نریندر مودی اور صدر چین ژی جن پنگ نے ایک جھولے میں بیٹھے باہمی تعلقات پر تبادلے خیال کیا۔ کسی شخصیت کے اس قدر قریب بیٹھ کر کوئی بھی اس کے لب و لہجہ، الفاظ کے اُتار چڑھاؤ، آواز کی لہروں اور حرکات و سکنات کے ذریعہ اس کے ارادے بھانپ لینا کچھ مشکل نہیں ہے لیکن ہمارے وزیراعظم ، صدر چین کے ارادوں کو بھانپنے میں ناکام رہے۔ یہاں تک کہ ایک طرف جھولا سمندر سے آنے والی ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکوں سے آہستہ آہستہ حرکت میں تھا اور اسی وقت چین کی پی ایل اے فورس ہندوستانی علاقے میں دراندازی سے متعلق منصوبہ بندی کی اڈوانسڈ حالت میں پہنچ گئی تھی چنانچہ یکم جنوری 2020ء کو چینی صدر ژی جن پنگ نے ہندوستان کے خلاف فوجی کارروائی کے حکم نامہ پر دستخط کئے اور پھر مارچ ۔ اپریل 2020ء میں پی ایل اے فورس ، ایل اے سی (Line of Actual Control) کو عبور کرکے ہندوستانی علاقوں میں گھس پڑی۔ 19 جون 2020ء کو وزیراعظم نریندر مودی نے کل جماعتی اجلاس طلب کیا اور اپنے اختتامی کلمات میں انہوں نے کچھ یوں کہا: ’’کوئی بھی بیرونی فرد ہندوستانی علاقہ میں داخل ہوا نہ ہی ہندوستانی علاقہ میں کوئی بیرونی فرد موجود ہے‘‘۔ کوئی بھی وزیراعظم نریندر مودی کے ان الفاظ پر یقین کرنا چاہے گا لیکن چینی سپاہیوں کی ہندوستانی علاقوں میں دراندازی کے بے شمار شواہد موجود ہیں، یہ وہ شواہد ہیں جو وزیراعظم کے دعوے کے متضاد ہیں۔
یادداشت سے محرومی
مسٹر موری یقینا یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ملک کے عوام اُن خطرناک یادوں سے بھرے دنوں کو بھول گئے ہیں۔ اس معاملے میں وہ (مودی) صحیح ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ لوگ دوسرے خراب فیصلوں اور غلط اقدامات کو بھی فراموش کرچکے ہیں۔ مثال کے طور پر نوٹ بندی، کورونا عالمی وباء کے دوران بناء کسی وارننگ یا انتباہ کے نافذ کردہ لاک ڈاؤن، اس لاک ڈاؤن کے دوران اندرون ملک غریب آبادی (غریب مزدوروں) کی نقل مکانی عمل میں آئی جس کے نتیجہ میں ان غریبوں کو ناقابل بیان بلکہ ناقابل تصور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا (بعض لوگ اور اداروں نے اس طرح نقل مکانی کرنے والے غریب ہندوستانیوں کی تعداد 30 ملین بتائی ہے)۔ اسی طرح انسان کی پیدا کردہ آکسیجن کی مصنوعی قلت، ندیوں کے کنارے جلتی چتائیں، ندیوں و دریاؤں میں بہتی نعشیں، ’’نمستے ٹرمپ‘‘ ریالی اور حالیہ عرصہ کے دوران پیش آیا موربی پل کا انہدام جیسا واقعہ اس کی واضح مثالیں ہیں۔ یہ ایسے واقعات ہیں جو حکومت کے غلط فیصلوں اور اقدامات کے نتیجہ میں پیش آئے لیکن شاید عوام ان واقعات کو بھی بھول چکے ہیں۔
جہاں تک ہند۔ چین سرحد پر کشیدگی کا سوال ہے، مارچ ۔ اپریل 2020ء سے 3,488 کیلومیٹر سرحد پر جو ہندوستان اور چین شیر کرتے ہیں۔ صورتحال انتہائی بدترین رخ اختیار کرچکی ہے۔ 9 ڈسمبر 2022ء کو اروناچل پردیش کے توانگ سیکٹر کے پنگتسے میں پیش آیا، تازہ واقعہ تلخ سچائی کا کھلا ثبوت ہے اور وہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ چین، ہندوستان کے علاقہ میں دراندازی کیلئے تاریخ اور وقت کا خود تعین کرتا ہے اور اس بارے میں ہماری حکومت بے خبر ہے اور بناء کسی پالیسی کہ یہ بہت اچھا ہوا کہ ہماری فورس ہر دراندازی کا موثر جواب دینے میں کامیاب رہی اور اس عمل میں ہمیں اپنے سپاہیوں سے محروم بھی ہونا پڑا۔ بے شمار سپاہی زخمی بھی ہوئے۔ مثال کے طور پر جون 2020ء میں وادی گلوان میں چینی سپاہیوں کے ساتھ جھڑپ میں ہمارے 20 سپاہی اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے۔ اروناچل پردیش میں ڈسمبر 2022ء (جاریہ ماہ کے دوران خود حکومت نے اعتراف کیا کہ ہمارے 7 سپاہی زخمی ہوئے حالانکہ کچھ دوسری رپورٹس میں اس سے کہیں زیادہ سپاہیوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ملی ہیں۔
چین وقت اور جگہ کا خود تعین کرتا ہے
اب یہاں یہ سوال ہے کہ چین کو وہ کیا چیز ہے جو اپنی پسند کے وقت اور مقام پر ہندوستانی علاقوں میں دراندازی کی ہمت اور خوداعتمادی عطا کرتی ہے؟ دیگر سوالات میں یہ بھی ایک سوال ہے کہ پارلیمنٹ 13 ، 14 اور 15 ڈسمبر کو اس مسئلہ پر مباحث کرنا چاہتی تھی لیکن پریسائیڈنگ آفیسر نے اس بنیاد پر درخواست مسترد کردی کہ یہ مسئلہ بہت ’حساس‘ ہے۔ پارلیمانی جمہوریت کی یہ کتنی عجیب و غریب تعریف ہے۔ پارلیمنٹ کو ایک ’حساس‘ مسئلہ پر بحث کی اجازت دینے سے انکار کیا جائے گا۔ اگر پارلیمنٹ صرف غیرحساس اُمور پر ہی بحث کرسکتی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ راجیہ سبھا میں قاعدہ 267 کے تحت جس معاملے پر مباحث ہوں گے، وہ فیفا فٹبال ورلڈ کپ فائنل میچ کے عمدہ نکات پر ہوں گے۔ فیفا فٹبال ورلڈ کپ کا فائنل ارجنٹینا اور فرانس کے درمیان آج کھیلا جائے گا ۔مسٹر ڈیرک اوبرائن ایم پی کے مطابق گزشتہ چھ برسوں میں راجیہ سبھا میں قاعدہ 267 کے تحت کی گئی مباحث کی ہر درخواست مسترد کردی گئی ۔ اس معاملے میں ایک مخصوص انگریزی لفظ Desuetude استعمال کیا جاتا ہے جس کے معنی غیرمروج کے ہوتے ہیں، ساتھ ہی قاعدہ 267 منسوخ کیا جاسکتا ہے۔ پارلیمنٹ انکار کرسکتی ہے لیکن عوام سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور عوام کا اس بارے میں جاننا ضروری ہے۔
٭ بات چیت کے کئی مرحلوں کے بعد چین نے ہاٹ اسپرنگ پر کچھ بھی تسلیم نہیں کیا۔
٭ چین نے دیسیانگ اور ڈیم چوک جنکشن میں فوجی دستوں کو ہٹانے سے متعلق بات چیت سے انکار کردیا۔ انگریزی کے موقر روزنامہ ’’دی ہندو‘‘ کے مطابق چینی فوجی، ان دو جنکشنوں میں ایل اے سی کے ہندوستانی علاقہ میں ہنوز موجود ہے۔
٭ مشرقی لداخ سے اروناچل پردیش تک چین نے اپنی فوج کی موجودگی اور فوجی انفرااسٹرکچر (فوجی دستوں، ہتھیاروں، سڑکوں، پلوں، مواصلاتی آلات، ہیلی پیاڈس اور یہاں تک کہ نئی آبادیوں) کو مضبوط و مستحکم کیا ہے۔
٭ امریکی محکمہ دفاع کے پریس سیکریٹری نے اس بات کا انکشاف کیا کہ امریکہ نے دیکھا کہ چین، ایل اے سی پر اپنے فوجیوں کو بڑے پیمانے پر تعینات کررہا ہے اور فوجی انفراسٹرکچر کی تعمیر کررہا ہے۔
٭ کئی بفر زونس قائم کئے گئے۔ ایک بفر زون کا مطلب یہ ہے کہ وہاں ہندوستانی فورسیس پٹرول یا گشت نہیں کرسکتے (جیسا کہ وہ 2020ء سے پہلے کررہا تھا)۔ یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ چین یانگٹسے میں ایک اور بفرزون کا مطالبہ کرے گا۔
٭ مسٹر مودی نے نومبر 2022ء میں بالی میں G-20 سربراہ اجلاس کے دوران ژی جن پنگ سے ملاقات کی۔ ویڈیو کلپ میں انڈونیشیائی سلک شرٹ زیب تن کئے ہوئے دونوں لیڈروں کو ایک ساتھ اور مصافحہ کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔ مسٹر مودی بات کررہے تھے۔ مسٹر ژی جن پنگ نے مسکرانا بھی گوارا نہیں کیا یا کسی قسم کا تاثر ان کے چہرہ پر نہیں تھا۔
چین کی جانب سے ہندوستان کے تئیں دشمنی و عداوت کے باوجود ہندوستان، چین کو جو برآمد کررہا ہے، اس سے چار گنا زیادہ درآمد کررہا ہے۔ سال 2021-22ء میں ہندوستان کا تجارتی خسارہ 73 ارب ڈالرس رہا۔ ہندوستان میں 174 چینی کمپنیوں نے اپنے ناموں کا اندراج کروایا۔ اس کے برعکس 3560 ہندوستانی کمپنیوں کے بورڈس میں چینی ڈڈائریکٹرس کو شامل کیا گیا۔