چین کی مسلمانوں کے خلاف کاروائی پر مسلم ممالک کا دفاع‘ اسلامی اتحاد اور یکجہتی کے عین خلاف

,

   

بیروت‘ لبنان۔ ایغور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر کاروائی کے ضمن میں 22مغربی ممالک نے چین کے خلاف دنیا کا سب سے پہلا اوربڑا مشترکہ چیالنج پیش کیا۔

اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کونسل کے ہائی کمشنر کو پیش کردہ اپنے مشترکہ بیان میں مذکورہ ممالک نے بیجنگ کو یہ کہتے ہوئے سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ ”بڑی پیمانے پر تحویل میں لینے کی خبریں پریشان کررہی ہیں“ اور ”بڑی پیمانے پر تحدیدات عائد کئے گئے ہیں اور نگرانی کی جارہی ہے“۔

ایک دن بعد دیگر37ممالک بیجنگ کی حمایت میں چین کی انسانی حقوق کے ریکارڈ کی ستائش کے ساتھ کود پڑے اور چین کے زنچیانگ علاقے میں دو ملین سے زائد مسلمانوں کی تحویل کی خبروں کو مسترد کردیا۔

چین حکومت کے مطابق لیٹر پر دستخط کرنے والوں میں زیادہ تر مسلم ممالک تھے جس میں پاکستان‘ قطر‘ سیریا‘ متحدہ عرب امارت اور سعودی عرب شامل تھے

۔مذکورہ مکتوب جس کو رائٹرس نے دیکھا ہے اس کے مطابق کہاگیا ہے کہ ”دہشت گردی اور شدت پسندی کے سخت چیالنج کا سامنا کرنے والے چین نے زنچیانگ میں مخالف دہشت گردی اور شدت پسندی کے سدباب کے سلسلہ وار اقدام اٹھائے ہیں جس میں ووکیشنل ایجوکیشن اور ترنیتی سنٹرس کا قیام بھی شامل ہے“۔

اس مکتوب میں کہاگیا ہے کہ پچھلے تین سالوں میں علاقے میں کوئی دہشت گرد حملہ پیش نہیں آیا ہے‘ او ر وہاں پر لوگ خوش اور تحفظ کا احساس کررہے ہیں۔

مکتوب میں جس زبان کا استعمال کیاگیا ہے وہ چین کے سابقہ دعوؤں کی طرح ہے‘ جس میں ایذا رسانی کے تمام الزامات کو مسترد کردیاگیاتھا زنچیانگ کے کیمپوں میں قائم کردہ ”وکیشنل ٹریننگ سنٹرس“ کے قیام کا مقصد دہشت گردی اور قدامت پسند اسلام کی کٹر سونچ کو کم کرنے ہے۔

مگر چین کا مسلمانوں کے ساتھ زنچیانگ علاقے میں بدسلوکی کی رپورٹس میں ائے دن اضافہ ہوتاجارہا ہے۔ کئی ایغور اور دیگر مسلم مذہبی اقلیت تعلیم کے احیاء کے نام پر قائم کردہ کیمپس میں محروسی کے عالم میں آگئے ہیں۔

سی این این سے بات کرتے ہوئے سابق میں قید کی صورتحال میں رہنے والے لوگوں نے بات کرتے ہوئے کہاکہ تشدد کے خطرات کے سایہ میں وہ کیمپس میں جبری طور پر رکھے گئے تھے۔

زیر تحویل رہے چین سے فرار ہونے والوں نے کہاکہ اسلام کا احیاء کے لئے وہیں چین کی برسراقتدار کمیونسٹ پارٹی سے وفاداری کے اقرار پر زوردیاجاتا رہا ہے‘کونسل برائے خارجی ریلیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ جانکاری ملی ہے۔

لہذا کیو ں کچھ مسلم اکثریتی والے ممالک بیجنگ کی حمایت میں آگے ائے ہیں؟۔سی این این سے بات کرتے ہوئے ڈی سی نژاد سنٹر برارئے گلوبال پالیسی کے ایک ڈائرکٹر عظیم ابراہیم نے کہاکہ ”میں اسبات پر حیران کہ (مسلم ممالک)جنھوں نے تحریر دی اور اس دستاویز پر دستخط بھی کی جس میں درحقیقت چین کی ستائش کی گئی ہے“۔

انہوں نے مزیدکہاکہ”ایک چیز یہ بھی ہے کہ خاموش رہے اور پردہ داری کریں۔

جبکہ دوسری چیز (مذکورہ پالیسیوں) کی غیرمعمولی حمایت کرنا جبکہ اسکی کوئی ضرورت بھی نہیں تھے“۔انہوں نے کہاکہ ”میں سمجھتاہوں یہ چین کے اثر اور طاقت کی طرف اشارہ کرتاہے“۔

مستقبل کی طرف نظر
کچھ ماہ قبل اکٹوبر2018کے بعد جمال خشوگی کے استنبول کی سعودی سفارت خانہ میں قتل کے بعد ولی عہد محمد بن سلمان اب تک اس واقعہ سے باہر نکلنے کی جدوجہد کررہے ہیں۔

سعودی صحافی کے قتل کے متعلق امریکہ کانگریس اپنے آستیان اوپر کئے ہوئے ہیں۔

مغربی ممالک کی جانب سے دباؤ بڑھتاجارہا ہے اور ایم بی ایس جیسا کے ولی عہد اس نام سے مشہور ہے‘ بین الاقوامی سرخیوں کا حصہ بنے ہوا ہے

۔سال2018کی اوائل میں سلمان بن محمد مغربی ممالک کے دورے پر تھے اور انہوں نے ممتا ز صنعت کاروں بشمول امیزان کے جیف بیزوس سے بھی ملاقات کی۔

ابراہیم نے کہاکہ ”مذکورہ ممالک اس بات کے احساس میں ہیں امریکہ بالخصوص موجودہ حالات میں کوئی قابل بھروسہ ساتھی نہیں ہے“۔

انہوں نے مزیدکہاکہ ”واضح طور پر چین زیادہ قابل بھروسہ طویل مدت کے لئے ہے۔ بالخصوص سعودی عربیہ جیسے ملک کے لئے جہاں کی قیادت کشیدگیوں کا شکار رہتی ہے۔

اور وہ بھی جمال خشوگی قتل جیسے معاملات کے حوالے سے“۔

مسلم ممالک کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کا فقدان فسلطین کے معاملے پر بھی سامنے آیاہے۔ عالمی سطح پر مسلم آبادیوں کے ساتھ ہونے والی کاروائیوں کے معاملات میں حالیہ سالوں کے دوران اسلامی دنیا میں تقسیم واضح طور پر نظر ائی ہے۔

جہاں پر ایران نے سیریائی صدر بشیر الاسد کی حماتی کی ہے‘ وہیں سعودی عربیہ اور اس کے ساتھ ممالک نے باغیوں کا ساتھ دیاہے‘ جن میں کچھ تو کٹر شدت پسندوں میں شما ر کئے جاتے ہیں۔

ایران‘ عراق‘ یمن جیسے ممالک مضر اثرات کا شکار ہیں“۔چین پر کئی مسلم ممالک نے پیشکش میں یکسانیت ہے۔جمعہ کے روز جاری کردہ مکتو ب میں یہ واضح طور پر نظر آیاہے۔