چین کے عزائم کو روکنا ضروری

   

چین ہندوستان کے خلاف وقفہ وقفہ سے جارحانہ عزائم کا اظہار کرتا جارہا ہے ۔ ہندوستان کی سرزمین پر چین کے قبضے کی بھی اطلاعات ہیں ۔ حالانکہ حکومت کی جانب سے ایسے کسی قبضے یا زمین کو ہتھیانے کے الزامات کی تردید کی گئی ہے تاہم ہمارے حدود میںچین کی جو سرگرمیاں ہیں وہ تشویش کا باعث ضرور بنی ہوئی ہیں۔ چین وقفہ وقفہ سے اپنے عزائم کی تکمیل کرتا جا رہا ہے اور وہ ہندوستانی سرزمین پر اپنے ٹھکانے بنا رہا ہے ۔ اپنے گاوں بسا رہا ہے ۔ فضائی اڈہ قائم کردیا گیا ہے ۔ ہندوستانی علاقوںکو چینی نام بھی دیدئے گئے ہیں۔ اور اب کہا جا رہا ہے کہ اس نے اروناچل پردیش کے کچھ علاقوں کو اپنا علاقہ قرار دینے سے بھی گریز نہیںکیا ہے ۔ اس نے ایک نیا نقشہ جاری کرتے ہوئے ہندوستانی سرحدات کو اپنے حدود میں ظاہر کرکے چینی علاقہ کے طور پر پیش کیا ہے ۔ ہندوستان اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ دیرینہ ہے اور اس کی یکسوئی کیلئے خاطر خواہ اقدامات نہیںکئے گئے ہیں۔ چین وقفہ وقفہ سے اپنے جارحانہ تیور بھی دکھاتا ہے ۔ سرحدات پر اپنی افواج کا اجتماع بھی کرتا ہے ۔ ہندوستان کو اشتعال دلانے اور اکسانے میں بھی کوئی کسر باقی نہیںرکھتا ہے ۔ ہندوستان نے اب تک صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے سفارتی کوششوں کو جاری رکھا ہوا ہے ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ چین اپنے جارحانہ تیور اور عزائم کی تکمیل کرنے کیلئے سفارتی کوششوںکو ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ برکس چوٹی کانفرنس میں جو جنوبی افریقہ میںمنعقد ہوئی تھی چین کے صدر ژی جن پنگ کی وزیر اعظم نریندرمودی سے ملاقات تو ہوئی لیکن اسی وقت میں چین نے اے نیا نقشہ جاری کرتے ہوئے اروناچل پردیش کو اپنا علاقہ قرار دیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ارونا چل پردیش ہندوستان کا علاقہ ہے اور اٹوٹ علاقہ ہے ۔ اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا ۔ ہندوستان کی سفارتی کوششوںکو چین در اصل ایسا لگتا ہے کہ اس کی کمزوری سمجھنے کی غلطی کر رہا ہے جبکہ ہندوستان باہمی بات چیت کے ساتھ اس مسئلہ کی یکسوئی چاہتا ہے ۔ تاہم موجودہ حالات میںہندوستان کو بھی اپنے تیور سخت کرنے کی ضرورت ہے ۔
وقفہ وقفہ سے سٹیلائیٹ کے ذریعہ جو تصاویر سامنے آتی ہیں ان کو دیکھتے ہوئے پتہ چلتا ہے کہ چین اپنے عزائم کی بتدریج تکمیل میں جٹا ہوا ہے ۔ ہندوستانی سرحدات میں اس کی در اندازی اور مداخلت بھی ان تصاویر میں واضح دکھائی دیتی ہے ۔ خود میڈیا میں بھی اس کو پیش کیا گیا ہے اس کے باوجود حکومت کی جانب سے اس کی تردید کی جاتی رہی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کی سرحدات کی حفاظت اور سلامتی کیلئے حکومت تمام سیاسی جماعتوں کواعتماد میں لے ۔ سرحدات کی حقیقی صورتحال سے ملک کو واقف کروائے ۔ حکومت کی جانبسے علاقائی سلامتی کو یقینی بنانے جو اقدامات کئے جا رہے ہیں ان کی تفصیل سے تمام اپوزیشن کو یا پھر ملک کی پارلیمنٹ کو واقف کروائے ۔ سرحدات کا مکمل اور جامع سروے کروائے اور اس کی رپورٹ کو پارلیمنٹ کے ذریعہ ملک کے عوام کے سامنے پیش کیا جائے ۔ چین کے عزائم اور تیور کوئی ڈھکے چھپے ہوئے نہیںہیں۔ چین ہمیشہ سے اشتعال انگیزی کرتا رہا ہے اور اس کے عزائم جارحانہ ہی ہیں۔ چین کے ساتھ سفارتی کوششیں تو ضرور برقرار رہنی چاہئیں لیکن ہمارے اپنے تیور بھی سخت اور کڑے کرنے اور ہندوستان کے تیور سے بھی اسے واقف کروانے کی ضرورت ہے ۔ ملک میں بھلے ہی کتنے ہی سیاسی اختلافات ہوں لیکن بیرونی جارحیت کے معاملے میں سارا ملک ایک ہے اور کوئی بھی علاقائی سلامتی کے مسئلہ پر کسی بھی طرح کا سمجھوتہ نہیںکرسکتا اور نہ ہی ملک کی سرحدات میں دراندازی یا مداخلت کو برداشت کرسکتا ہے ۔
گذشتہ تقریبا دس سال میں یہی دیکھا گیا ہے کہ چین اپنے عزائم کا بار بار اظہار کرتا جا رہا ہے اور ہم محض سفارتی کوششوں پر اکتفاء کر رہے ہیں۔ ایک موقع پر تو دونوںملکوں کی افواج سرحدات پر آمنے سامنے آگئی تھیں۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس سے ہر ہندوستانی کو اندیشے لاحق ہیں ۔ ہر ہندوستانی فکرمند ہے ۔ ہر ہندوستانی چاہتا ہے کہ اپنے ملک کی سرحدات کی ہر قیمت پر حفاظت ہو اور اس معاملے میں حکومت کو بھی مسلسل نرمی سے کام لینے کی بجائے اپنے تیور کو سخت کرتے ہوئے چین کو اپنی طاقت کا بھی احساس دلانا چاہئے اور اس پر یہ واضح کردینا چاہئے کہ ہندوستان کی علاقائی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ ممکن ہی نہیں ہوسکتا۔