ڈوبتے بینک اور قومی معیشت

   

مجھے ہمدردی تو ہے لیکن کہیں ایسا نہ ہو!
میری آنکھیں سوکھ جائیں تیرا دامن نم رہے
ڈوبتے بینک اور قومی معیشت
ہندوستان اپنی معیشت کو پانچ ٹریلین ڈالرس تک پہونچانے کے عزائم کے ساتھ کام کر رہا ہے ۔ ملک کے جاریہ سال کے بجٹ میں حکومت نے یہ واضح کیا تھا کہ معیشت کو پانچ ٹریلین ڈالرس تک پہونچانے کی بنیادیں رکھی جا رہی ہیں۔ انہیں بنیادوں پر آگے بڑھتے ہوئے ملک کی معیشت کو دنیا کی بڑی معیشتوں میں شامل کروانے کا منصوبہ ہے اور اسی کے تحت حکومت اپنے پروگرامس اور پالیسیاں بنا رہی ہے ۔ حکومت کے دعوے اپنی جگہ لیکن ایسا لگتا ہے کہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں اور ہندوستان کی معیشت بری طرح سے متاثر ہوتی جا رہی ہے ۔ گذشتہ کئی مہینوں کے دوران یہ دیکھا گیا ہے کہ ملک کی معیشت کے مختلف شعبہ جات سست روی اور معاشی مندی کی وجہ سے پریشانیوں کا شکار ہیں۔ کئی شعبہ جات میں شرح ترقی گھٹتی جار ہی ہے ۔ اس کے اثرات راست ملک کی جملہ گھریلو پیداوار پر پڑھ رہے ہیں اور عوام کا معیار زندگی مسلسل گرتا جا رہا ہے ۔عوام کی جیب اس صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہوتی جا رہی ہے ۔ مہنگائی کی وجہ سے عوام کی کمر الگ سے ٹوٹ رہی ہے ۔ لوگ اپنے روزگار سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ بڑی فیکٹریوں اور کمپنیوں سے لے کر چھوٹی دوکانوں تک کے کاروبار متاثر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کے بعد ملک کے بینکوں کا مسئلہ عوام کیلئے سب سے زیادہ پریشان کن بنا ہوا ہے ۔ ایک کے بعد دیگرے بینکس ڈوبتے جا رہے ہیں۔ عوام کی رقومات بینکوں میں رکھی ہوتی ہیں اور بینک ڈوبنے سے عوام ڈوب جاتے ہیں۔ ریزرو بینک آف انڈیا اورح کومت ہند ہر موقع پر عوام کو کچھ تسلیاں اورجھوٹے دلاسے والے بیانات دیتے ہیں اور پھر خاموش ہوجاتے ہیں۔ عوام کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے ۔ گذشتہ مہینوں میں پنجاب مہاراشٹرا بینک کا مسئلہ ہوا جس میں ہزاروں کھاتہ داروں کے کروڑہا روپئے ڈوب گئے ۔ پھر سرکاری بینکوں کو ایک دوسرے میں ضم کرنے کا عمل شروع ہوا اور اب یس بینک کی باری آگئی ہے ۔ یس بینک پر بھی مسائل آن پڑے ہیں اور حکومت نے اس سے بھی رقومات نکالنے کی ایک حد مقرر کردی ہے اور اس کا بھی راست اثر عوام پر پڑیگا ۔
جس طرح سے حالات تیزی سے بدلتے جا رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ ملک کی معیشت اور معاشی نظام میں مرکزی مقام رکھنے والے بینکس پر سے عوام کا بھروسہ اٹھتا جا رہا ہے ۔ عوام بینکوں میں بھی اپنی رقومات کو محفوظ نہیں سمجھ رہے ہیں۔ عوام کے ایسا سمجھنے میں حالات ہی اصل وجہ ہیں کیونکہ ایک کے بعد دیگرے بینکس کی حالت بگڑتی جا رہی ہے ۔ سرکاری بینکوں کی حالت بھی خانگی بینکوں سے مختلف نہیںہے ۔ وہاں بھی ہزاروں کروڑ روپئے چند مٹھی بھر کارپوریٹ تاجروں کو سونپ دی جاتی ہیں اور جب وہ ملک سے فرار ہوجاتے ہیں یا پھر گھپلہ کردیتے ہیں تو اس کا خمیازہ بھی عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے ۔ عوام کو اپنی ہی رقومات حاصل کرنے کیلئے بینکوں کی قطار میں کھڑا کردیا جاتا ہے اور رقم بھی بالکل معمولی دی جاتی ہے ۔ اس صورتحال نے ملک میں جس طرح معاشی صورتحال کو بگاڑا ہے اسی طرح بینکوں پر سے عوام کا بھروسہ ختم کردیا ہے ۔ یہ صورتحال ملک کے بینکنگ نظام کیلئے اچھی نہیں کہی جاسکتی ۔ بینکوں کا کاروبار عوامی رقومات پر ہی چلتا ہے اور اگر عوام ہی کی رقومات کے لالے پڑھ جائیں اور عوام کا بھروسہ ان بینکوں پر سے اٹھ جائے تو پھر سارا نظام ہی ٹھپ ہوسکتا ہے اور اس کی ذمہ داری بہر صورت مرکزی حکومت پر ہی عائد ہوگی ۔ جہاں تک موجودہ حالات کا سوال ہے اس میں بھی کہا یہ جا رہا ہے کہ حکومت کی پالیسیاں اور اس کے اقدامات ہی اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں حالانکہ حکومت اس ذمہ داری کو قبول کرنے تیار نظر نہیں آتی ۔
جس معیشت کو پانچ ٹریلین ڈالرس تک پہونچانے کی باتیں ہو رہی ہیں وہاں سار ا معاشی نظام انتہائی شفاف اور مستحکم ہونا ضروری ہوتا ہے لیکن ہندوستان میں یہ دونوں چیزیں ناپید ہیں۔ نہ بینکنگ نظام میں شفافیت ہے اور نہ یہ سسٹم اب مستحکم کہا جاسکتا ہے ۔ حکومت حقائق کو عوام سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ عوام کی جیبوں سے اور ان کے کھاتوں سے رقومات ختم ہو رہی ہیں اور حکومت نزاعی و اختلافی مسائل اور ہندو ۔ مسلم کے جھگڑے میں انہیں الجھائے رکھنا چاہتی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ فوری طور پر ملک کی معیشت کو سدھارنے اور بینکنگ نظام کو مستحکم بنانے پر توجہ دے ۔ اس کیلئے سیاسی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ماہرین معاشیات سے مشورہ کرنے کی ضرورت ہے اور ہر گوشے کی تجاویز حاصل کرتے ہوئے صاف دلی سے منصوبے بنائے جانے چاہئیں۔