کانگریس مستقبل کا راستہ طئے کرے

   

راجستھان میں کانگریس کیلئے حالات سازگار ہوگئے ہیں ۔ وہاں سچن پائلٹ اور اشوک گہلوٹ کے مابین عملا صلح ہوگئی ہے ۔ راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی سے سچن پائلٹ کی ملاقات کے بعد اشوک گہلوٹ حکومت پر منڈلا رہا خطرہ ختم ہوگیا ہے اور اب فوری طور پر کسی بحران کی صورتحال نہیں ہے ۔ جس وقت سچن پائلٹ نے علم بغاوت بلند کیا تھا یہ اندیشے ظاہر کئے جارہے تھے کہ کانگریس کیلئے صورتحال پر قابو پانا مشکل ہوجائیگا۔ یہ خیال بھی کیا جارہا ہے تھا کہ کانگریس کیلئے راجستھان کے بعد سارے ملک میں حالات مزید دگر گوں ہوجائیں گے۔ جس طرح مدھیہ پردیش میں جیوتیر آدتیہ سندھیا نے بغاوت کرکے کمل ناتھ حکومت کو زوال کا شکار کردیا تھا بعض گوشوں کی جانب سے راجستھان میں بھی اسی طریقہ کی صورتحال پیدا ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا تھا۔ تاہم سچن پائلٹ نے پارٹی اصولوں اور پالیسیوں سے بغاوت کئے بغیر بی جے پی سے کوئی اتحاد یا ساز باز نہیں کیا اور نہ ہی بی جے پی کو چور دروازے سے اقتدار پر قبضہ کرنے کا موقع دیا۔ بی جے پی یہ کام کرناٹک اور مدھیہ پردیش میں کامیابی سے کرچکی تھی۔ اب جبکہ کانگریس نے راجستھان کے بحران پر عملاً قابو کرلیا ہے اور صورتحال اس کے حق میں ہے ایسی صورت میں پارٹی کیلئے اپنے مستقبل کا راستہ طئے کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ جس ریاست میں حالات پارٹی کی بقاء کیلئے خطرہ بن گئے تھے اُسی ریاست میں اتحاد اور استحکام کے ذریعہ کانگریس پارٹی سارے ملک میں اپنے تنظیمی ڈھانچے کو بہتر بنانے کیلئے بنیاد ڈال سکتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق کانگریس پارٹی میں سینئر اور نوجوان قائدین میں اختلافات بھی پیدا ہوتے جارہے ہیں۔ بعض مواقع پر ان اختلافات کو سرِعام ظاہر بھی کیا جارہا ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف ریمارکس اور تنقیدیں ہونے لگی ہیں۔ یہ صورتحال پارٹی کے حق میں ہرگز نہیں ہوسکتی۔ جس طریقہ سے راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی نے راجستھان کے بحران کو کسی تشہیر کے بغیر حل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اسی طرح دونوں ہی قائدین کو پارٹی کے تنظیمی اُمور پر توجہ کرتے ہوئے مستقبل کو پیش نظر رکھ کر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ فیصلے سخت بھی ہوسکتے ہیں اور ان کے دوررس اثرات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جب تک اس طریقہ کے فیصلے نہیں ہوں گے پارٹی کے استحکام کی اُمید کرنا فضول ہی ہوگا۔ لوک سبھا انتخابات کے بعد جب راہول گاندھی نے کانگریس کی صدارت چھوڑ ی تھی عبوری انتظام کے طور پر سونیا گاندھی نے یہ ذمہ داری سنبھال لی تاہم سونیا گاندھی کی یہ عبوری مدت بھی اب ختم ہوچکی ہے ایسے میں پارٹی کو شفاف اور فراخدلانہ انداز میں پارٹی کے نئے صدر کا انتخاب عمل میں لانا چاہیئے۔ نئے صدر کو کامل اختیار بھی ہونا چاہیئے کہ وہ اپنی ٹیم کا اپنی مرضی سے انتخاب کرے جن قائدین کو نئی ٹیم میں موقع مل جائے وہ پورے جوش و ـجذبہ کے ساتھ کام کرتے ہوئے پارٹی کو مستحکم کرنے سرگرم ہوجائیں۔ جن قائدین کو موقع نہ مل پائے انہیں ناراضگیوں کا اظہار کرنے اور پارٹی مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے بجائے فراخدلی کے ساتھ پارٹی کے فیصلوں کو قبول کرتے ہوئے پارٹی کے استحکام کو اپنی حیثیت میں یقینی بنانے کی جدوجہد کرنا چاہیئے۔ نوجوان اور سینئر قائدین کے امتزاج کے ساتھ ہی پارٹی ملک کے عوام کی توقعات کو پورا کرنے کیلئے جدوجہد کرسکتی ہے۔ صرف سینئر قائدین پر تکیہ کرنا کافی نہیں ہوسکتا اور نہ ہی تمام ذمہ داریاں نوجوان قائدین کو سونپی جاسکتی ہیں۔ دونوں کے درمیان توازن برقرار رکھتے ہوئے ذمہ داریوں کو بھی بانٹا جانا چاہیئے۔

اب جبکہ راجستھان کی صورتحال کانگریس کے حق میں بہترہوگئی ہے اور بہار میں اسمبلی انتخابات کا ماحول بنتا جارہا ہے۔ پارٹی کو اپنے طور پر مستحکم انداز میں ازسرِ نو پہل کرنے کی ضرورت ہے۔ ماضی کی شکست کو پس پُشت ڈالتے ہوئے نئے جوش و جذبہ اور نئے خون کے ساتھ آگے بڑھنے کا منصوبہ بنانا چاہیئے۔ پارٹی کو ہر ریاست کیلئے مقامی حالات اور عوامی توقعات کے مطابق منصوبے تیار کرنے اور علاقائی قائدین کی رائے کو اہمیت دیتے ہوئے فیصلے کرنے اور حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ مقامی حالات کا صحیح اندازہ کرتے ہوئے ان کے مطابق پالیسیاں تیار کی جائیں تب ہی عوام کو پارٹی سے دوبارہ مسائل کی بنیاد پر جوڑا جاسکتا ہے اور اسی میں پارٹی کی کامیابی بھی ممکن ہوسکتی ہے۔