کانگریس میں قیادت کا مسئلہ

   

ملک کی سب سے قدیم سیاسی جماعت ‘ جس نے جدوجہد آزادی میں بھی سرگرم رول ادا کیا تھا ‘ اس وقت قیادت کے مسئلہ سے پریشان ہے ۔ گذشتہ لوک سبھا انتخابات کے بعد راہول گاندھی نے پارٹی شکست کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفی پیش کردیا تھا ‘ سونیا گاندھی کو پارٹی کی صدارت عبوری طور پر سونپی گئی تھی ۔ سونیا گاندھی نے دیڑھ سال کا عرصہ عبوری صدارت کے ساتھ گذار دیا ہے اور اب پیر کو کانگریس کی اعلی ترین پالیسی ساز تنظیم کانگریس ورکنگ کمیٹی کا اجلاس ہونے والا ہے اور اس اجلاس سے قبل پارٹی میں صدارت کے مسئلہ پر داخلی اختلافات سامنے آ رہے ہیں۔ کچھ قائدین چاہتے ہیں کہ پارٹی میں اجتماعی قیادت کو پیش کیا جائے جبکہ ایک گروپ یہ چاہتا ہے کہ راہول گاندھی کو دوبارہ پارٹی کی ذمہ داریاں سونپی جائیں اور اس میں نئی جان ڈالنے کیلئے تیاریوں کا آغاز کردیا جائے ۔ کچھ قائدین چاہتے ہیں کہ پارٹی میں اجتماعی قیادت کو یقینی بناتے ہوئے ریاستی یونٹوں کو بھی اختیارات دئے جائیں۔ ایک مرکزی پارلیمانی بورڈ تشکیل دیا جائے جو چند دہے قبل تک کانگریس کا لازمی حصہ ہوا کرتا تھا تاہم بعد میں اس کو ختم کردیا گیا ۔ کانگریس ملک کی سب سے قدیم سیاسی جماعت ہے اور اسی جماعت نے ہندوستان پر سب سے زیادہ عرصہ تک حکمرانی کی ہے ۔ایک طویل عرصہ کے بعد پارٹی میں قیادت کا مسئلہ پیدا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ عین فطری بات ہے تاہم اس مسئلہ کو پوری سنجیدگی اور یکسوئی کے ساتھ حل کرنا پارٹی کی موجودہ قیادت اور پارٹی کے سبھی ذمہ دار قائدین کا فریضہ بنتا ہے ۔ قیادت پر اختلاف رائے ہونا بھی کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ ہر گوشہ اپنے اپنے خیالات کے اظہار کی آزادی رکھتا ہے اور یہ حق سبھی کو حاصل بھی ہے تاہم ان اختلافات کو شخصی اور ذاتی عناد میں تبدیل ہونے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے ۔ اس سے پارٹی کو نقصان ہوسکتا ہے جو پہلے ہی کئی طرح کے مسائل کا شکار ہے اور ایک طرح سے اپنے وجود کی لڑائی لڑنے میں مصروف ہے ۔ پارٹی کے سبھی قائدین کو اس معاملے میں پوری سنجیدگی اور ذمہ داری کے ساتھ اپنا رول ادا کرنا ہوگا ۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ کانگریس پارٹی کو بنیادی سطح تک مستحکم کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ ہر ریاستی یونٹ کو اپنے اپنے مقامی حالات کی بنیاد پر فیصلے کرنے کا اختیار دیا جانا چاہئے ۔ تنظیمی سطح پر تبدیلیاں بھی بہت ضروری ہیں۔ تنظیمی ذمہ داریاں تفویض کرتے ہوئے جوابدہی کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے ۔ پارٹی کے نظریات کو بنیاد بناتے ہوئے تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں اور اس بات کو یقینی بنایا جاسکتا ہے کہ ایک جامع حکمت عملی اور منصوبہ کے تحت کام کیا جائے ۔ ہر تنظیم اور ہر ذمہ دار لیڈر کو پارٹی کے منصوبوں کے مطابق کام کرنے کی ذمہ داری تفویض کی جاسکتی ہے اور ہر ذمہ دار شخص کو پارٹی کی مرکزی قیادت کو جوابدہ بناتے ہوئے ایک بہتر ماحول پیدا کیا جاسکتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کانگریس کی ریاستی یونٹوں کو اپنے طور پر فیصلے کرنے کا زیادہ اختیار نہیں دیا جاتا اور دہلی سے فیصلے مسلط کئے جاتے ہیں۔ یہ فیصلے کبھی پارٹی کے استحکام میں بھی معاون ہوئے ہیں لیکن بیشتر موقعوں پر ریاستی یونٹوں کو ان فیصلوں سے اختلاف بھی رہا ہے ۔ ملک کے موجودہ سیاسی حالات میں کانگریس کو اپنے استحکام پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اسے پارٹی کی تنظیمی ہئیت اور نوعیت کو تبدیل کرتے ہوئے جہاں تجربہ کار قائدین کی خدمات سے استفادہ کرنا چاہئے وہیں رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے کیلئے نوجوان قائدین کو بھی موقع دینے اور ان پر بھی ذمہ داریاں عائد کرتے ہوئے ان سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے ۔

اس حقیقت کو ذہن نشین رکھا جانا چاہئے کہ کانگریس پر اس ملک کی اپوزیشن کی قیادت کی ذمہ داری ہے ۔ قومی سطح پر اپوزیشن کی حیثیت سے کسی اور جماعت کا وجود نہیں رہ گیا ہے ۔ علاقائی جماعتیں اپنے اپنے طور پر ضرور سرگرم ہیں لیکن وہ مرکز کی بی جے پی حکومت سے اختلافات یا ٹکراو کا رویہ اختیار کرنے کیلئے تیار دکھائی نہیں دیتیں یا پھر ان میں حوصلے کی کمی پائی جاتی ہے ۔ ان کے سامنے علاقائی مفادات اور سیاسی وجود زیادہ اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے ۔ ایسے میں کانگریس پارٹی کو مرکزی سطح پر علاقائی جذبات و توقعات کا خیال کرتے ہوئے اپنے آپ کو حالات کا سامنا کرنے کیلئے تیار کرنا ہوگا اور تمام سینئر اور نوجوان قائدین کو ذاتی رائے کو اہمیت دئے بغیر پارٹی کے مفادات کا تحفظ کرنے تیار ہوجانا چاہئے ۔