کانگریس کے بینک کھاتے منجمد

   

تغافل ہی کسی کا جب نشاط افزائے الفت ہے
تو کوئی میرے حالِ زار پر پھر مہرباں کیوں ہو
محکمہ انکم ٹیکس کی جانب سے کانگریس کے بینک کھاتوں کو منجمد کردیا گیا اور کانگریس نے اس کے خلاف اپیل ٹریبونل سے رجوع ہوتے ہوئے راحت حاصل کرلی ہے ۔ تاہم جس طرح سے سپریم کورٹ کی جانب سے الیکٹورل بانڈز کی اسکیم کو غیر دستوری قرار دیتے ہوئے برخواست کردیا گیاتھا اس کے ساتھ ہی انکم ٹیکس محکمہ کی جانب سے کانگریس کے بینک اکاؤنٹ کو منجمد کردیا گیا تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ الیکٹورل بانڈز کی جو اسکیم تھی اس کے تحت 90 فیصد عطیات بھارتیہ جنتا پارٹی کو حاصل ہوئے ہیں۔ یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ اس کے عطیہ دہندگان کون ہیںکیونکہ ان کی شناخت کو منفی رکھنے کی اس اسکیم میں گنجائش موجود تھی اور اسی گنجائش کو قابل اعتراض قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے اس اسکیم کو غیر دستوری قرار دیا ہے ۔ اب جبکہ کانگریس کے بینک کھاتوں کو منجمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اس پر یہ الزام عائد کیا جارہا ہے کہ مرکزی حکومت ایک طرح سے تحقیقاتی ایجنسیوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مخالفین پر شکنجہ کسنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہی ہے ۔ حکومت چاہتی ہے کہ سیاسی میدان میں اس کے سامنے کوئی کھڑا ہی نہ رہنے پائے ۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف جماعتوں کو ای ڈی اور سی بی آئی کے ذریعہ خوفزدہ کرنے کا سلسلہ دراز کیا جارہا ہے ۔ کئی قائدین کو نشانہ بنانے کے بعد تازہ ترین صورتحال میں جھارکھنڈ کے سابق چیف منسٹر ہیمنت سورین کو گرفتار کیا گیا ۔ اس کے بعد اب ایسا لگتا ہے کہ چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ اروند کجریوال کو ای ڈی کی جانب سے مسلسل سمن جاری کرتے ہوئے پوچھ تاچھ کیلئے طلب کیا جا رہا ہے لیکن وہ لگاتار اس طلبی کو نظر انداز کرتے جا رہے ہیں۔ ہر بار انتخابات سے قبل کسی نہ کسی طرح سے مخالف قائدین کو نشانہ بنانے سے بی جے پی گریز نہیں کرتی اور اس بار لوک سبھا انتخابات سے قبل ملک کی اصل اپوزیشن جماعت کانگریس کے بینک کھاتوں ہی کو منجمد کردیا گیا ہے ۔ حالانکہ کانگریس نے اس کے خلاف اپیل ٹریبونل سے راحت ضرور حاصل کرلی ہے لیکن اس سے حکومت کے منشاء و مقصد کا واضح طور پر پتہ ضرور چل جاتا ہے ۔
جس طرح سے یہ کارروائی کی گئی ہے اس سے اس اقدام کے وقت کو نظر میں رکھنا ضروری ہے ۔ اب جبکہ آئندہ لوک سبھا انتخابات کا بگل کسی بھی وقت بج سکتا ہے اور سپریم کورٹ سے الیکٹورل بانڈز کی اسکیم پر امتناع عائد کردیا گیا ہے تو ایسے میںان کاؤنٹس کو منجمد کرنے کے پس پردہ عزائم و مقاصد کا اندازہ کرنا زیادہ مشکل نہیںرہ گیا ہے ۔ یہ شبہات ضرور تقویت پاتے ہیں کہ اس کا مقصد بھی کانگریس کو انتخابی میدان سے دور کرنا ہی نظر آتا ہے ۔ جس طرح سے بی جے پی نے ابتداء ہی میں کانگریس مکت بھارت کا نعرہ دیا تھا اسی سمت یہ قدم دکھائی دیتا ہے ۔ حالانکہ انتخابی سیاست میں ایسا کرنا بی جے پی کیلئے ممکن نہیں ہو رہا ہے کیونکہ ایک ریاست میں اگر کانگریس کو شکست ہو رہی ہے تو دوسری ریاست میں اسے کامیابی بھی مل رہی ہے ۔ جنوب کی دو ریاستوں میں کانگریس کو حالیہ وقتوں میں اقتدار حاصل ہوا ہے اور ہماچل پردیش میں بھی گذشتہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس پارٹی کامیاب رہی تھی ۔ اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اب کانگریس کو انتخابی میدان میں مشکلات سے دوچار کرنے کے منصوبوں پر شائد عمل شروع کردیا گیا ہے اور اسی کے تحت بینک اکاؤنٹس کو منجمد کرنے کا طریقہ اختیار کیا گیا ۔ سیاسی مخالفت ضرور قابل فہم ہے لیکن اس کے نام پر مخالفین کو بالکل ہی کچل دینے کے جذبہ کے ساتھ کام کرنا ہندوستانی روایات اور ہماری جمہوریت کے جو اصول ہیں ان کے یکسر مغائر ہیں۔ ایسے حربوں سے ہر جماعت اور حکومت کو گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔
خلاف قانون جو کوئی کام کرتا ہے اس کے خلاف قانون کے مطابق ضرور کارروائی کی جانی چاہئے ۔ تاہم قانونی کارروائی کے نام پر سیاسی دشمنی یا مخاصمت کو آگے بڑھانا درست نہیںہوسکتا ۔ ہندوستان کی جو جمہوریت ہے وہ ہمہ جماعتی جمہوریت ہے ۔ یہاںہر جماعت کو کبھی عوامی تائید حاصل ہوتی ہے تو کبھی وہ عوامی تائید سے محروم بھی ہوجاتی ہے ۔ کسی ریاست میں کوئی جماعت طاقتور ہے تو کسی ریاست میں کسی اور جماعت عوام کی پسندیدہ ہے ۔ یہی ہماری جمہوریت کا امتیاز اور اس کی انفرادیت ہے اور اس کو مسخ یا داغدار کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔ جمہوریت کا تحفظ اور استحکام سب کیلئے ضروری ہے ۔