کجریوال نشانہ ‘ بوکھلاہٹ کا نتیجہ

   

لحاظ دوست اور دشمن بچاکر
کرو تنقید فکر و فن بچاکر
بالآخر وہی ہوا جس کے اندیشے ظاہر کئے جا رہے تھے ۔ چیف منسٹر دہلی و عام آدمی پارٹی کے نیشنل کنوینر اروند کجریوال کو گرفتار کرلیا گیا ۔ کجریوال کی گرفتاری بھی دہلی شراب اسکام کے سلسلہ میںعمل میںآئی ہے ۔ یہ اسکام ایک طرح سے بی جے پی کیلئے سیاسی ہتھیار بن گیا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں کئی قائدین کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے اور سب سے بڑا اور اصل نشانہ عام آدی پارٹی ہی نظر آرہی ہے ۔ دہلی کے سابق ڈپٹی چیف منسٹر منیش سیسوڈیا کو گرفتار کیا گیا ۔ عامآدمی پارٹی کے رکن راجیہ سبھا سنجے سنگھ کو گرفتارکیا گیا اور اب خود ایک موجودہ چیف منسٹر کو بھی انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ نے گرفتار کرلیا ہے ۔ اس کیس کے جو معاملات ہیں ان پر کئی گوشوں سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ یہ اسکام اتنا بڑا بھی نہیں ہے کہ اس میں بے شمار قائدین کو جیل بھیجا جاسکے ۔ تاہم بی جے پی سیاسی مقاصد کی تکمیل کیلئے اس اسکام کا استعمال کر رہی ہے اور سیاسی مخالفین کی کمر توڑتے ہوئے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ بی جے پی آئندہ پارلیمانی انتخابات میں370 سے زیادہ نشستوںپر کامیابی کا نشانہ رکھتی ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کو خود اس بات کا یقین نہیںہے کہ وہ اپنے طور پر سادہ اکثریت بھی حاصل کر پائے گی ۔ خاص طور پر اپوزیشن کی صفوںمیں جو جوش و خروش نظر آرہا ہے اور عوامی سطح پر حکومت کے خلاف اس کے تمام حربوںکے باوجود جو عوامی رائے محسوس ہونے لگی ہے اس نے بی جے پی کی نیند حرام کردی ہے ۔ یہی وجہ نظر آتی ہے کہ بی جے پی بوکھلاہٹ کا شکار ہونے لگی ہے ۔ بی جے پی خود دو تہائی اکثریت کے دعوے کر رہی ہے لیکن ایک چھوٹی سے چھوٹی جماعت اور چھوٹے سے چھوٹے لیڈرکو بھی اپنے ساتھ ملاتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیںدے رہی ہے ۔ نتیش کمار سے لے کر چراغ پاسوان تک اور ایکناتھ شنڈے سے لیکر اجیت پوار تک پھر چندرا بابو نائیڈو سے لے کر پون کلیان تک اور حد تو یہ ہوگئی کہ مہاراشٹرا میں راج ٹھاکرے تک کو ساتھ ملاتے ہوئے بی جے پی اپنے امکانی نقصان کو پورا کرنے کی تگ و دو میں جٹی ہوئی نظر آ رہی ہے ۔
جہاں تک اروند کجریوال کاسوال ہے وہ بی جے پی کیلئے دہلی ‘ پنجاب اور ہریانہ میں پریشانی کا باعث بنے ہوئے تھے ۔ دہلی میں عآپ اور کانگریس اتحاد کے نتیجہ میں بی جے پی کو تمام سات نشستوں پر قبضہ برقرار رکھنا مشکل ہوگیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ پانچ امیدواروں کو تبدیل کردیا گیا ۔ اس کے باوجود بھی بی جے پی تمام سات نشستیں برقرار رکھنے میںشائد کامیاب نہیں ہوگی ۔ پنجاب میں بھی عام آدمی پارٹی کا بول بالا ہے اور بی جے پی وہاں بھی اپنی ساکھ کو بحال کرنے میں شائد کامیاب نہ ہوسکے ۔ یہی صورتحال ہریانہ میں بھی دکھائی دے رہی تھی ۔ہریانہ میں بھی بی جے پی نے چیف منسٹر کو تبدیل کردیا ۔ اپنی حلیف جماعت کا ساتھ چھوڑ دیا ۔ تاہم وہاں بھی کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے اتحادسے بی جے پی کو نقصان ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ اروند کجریوال عوامی سطح پر ایک مقبول لیڈر ہیں۔ وہ عوام میں ایک اچھی امیج کے بھی مالک ہیں۔ بی جے پی کو یہ اندیشے لاحق تھے کہ اروند کجریوال کانگریس کے ساتھ جب عوام میں جائیں گے تو بی جے پی کی نشستوں کی تعداد کو گھٹانے میںکامیاب ہونگے ۔ یہی وجہ نظر آتی ہے کہ بی جے پی نے انہیںعوام تک پہونچنے سے روکنے کی حکمت عملی بنائی اور سیاسی مخالفین کے الزامات کے مطابق ای ڈی کو استعمال کرتے ہوئے اروند کجریوال کو بھی گرفتار کرلیا ہے اور اپنے طور پر وہ سیاسی مخالفین کے پر کاٹنے میں لگی ہوئی تاکہ انتخابات کے دوران اس کے خیال میں کوئی مقابلہ ہی باقی رہنے نہ پائے ۔
تمام تر حربوں اور ہتھکنڈوں کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ بی جے پی کے داخلی حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے ۔ وہ بلند بانگ دعوے تو کر رہی ہے تاکہ عوام میں ساکھ برقرار رہ سکے لیکن وہ بوکھلاہٹ کا شکار بھی ہوتی نظر آ رہی ہے ۔ جس طرح 2018 میں گجرات میں اب کی بار 150 پار کا نعرہ دیا گیا تھا لیکن پارٹی 100 کا ہندسہ بھی چھو نہیں سکی تھی وہی صورتحال پارلیمانی انتخابات میں بھی ہوسکتی ہے ۔ بی جے پی اسی صورتحال سے بچنے کیلئے بوکھلاہٹ میں اس طرح کی کارروائیوںپر انحصار کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود جو پیش قیاسیاں کی جا رہی ہیں ان کے مطابق پارٹی اپنے دعووں کے کھوکھلے پن سے خود واقف نظر آتی ہے ۔