کرایہ داروں اور مکان داروں کے درمیان تنازعات کی یکسوئی ناگزیر

   

محمد اسد علی، ایڈوکیٹ
Landlord
کا مطلب کسی عمارت کا مالک ہوتا ہے اور اس میں وہ شخص شامل ہے جو عمارت کا کرایہ حاصل کررہا ہو یا اس کا مستحق ہو۔ خواہ یہ کرایہ وہ خود حاصل کرے یا کسی دوسرے فرد یا اپنی جانب سے بطور ایجنٹ
Executor Administrator
یا اسے حاصل کرنے والا یا سرپرست یا ایسا شخص ہوتا ہے جسے اس طرح کرایہ حاصل ہوتا یا وہ کرایہ کے حصول کا مستحق ہو۔ اگر مذکورہ بالا عمارت یا عمارتوں کو کسی کرایہ دار کو کرایہ پر دیا جائے اور کرایہ دار کا مطلب کوئی بھی شخص ایسا ہوتا ہے جس کے ذریعہ مکان دار کے اکاؤنٹ میں عمارت کا کرایہ ادا کیا جاتا ہو اور اس عمارت میں
Tenant Family
کرایہ دار کی حیثیت سے مقیم ہو اور یہ کرایہ داری کی میعاد ختم ہونے کے بعد عمارت مالک مکان کے قبضہ میں آجاتی ہے۔ اگر کوئی تحریری معاہدہ (سمجھوتہ) نہ ہو تو مالک مکان اور کرایہ دار، کرایہ داری کے سلسلے میں تحریری معاہدہ کرے جو پہلے شیڈول میں صراحت کردہ شکل میں ہونے کے ساتھ ساتھ اسے رجسٹرڈ کروانا چاہئے۔
Sub-Section (1) and (2)
کے مطابق فراہم کردہ معلومات کو کرایہ داری اور اس سے متعلقہ اُمور میں حقائق کا ثبوت سمجھا جائے گا۔ مالک مکان اور کرایہ دار کو تحریری معاہدہ پر دستخط کرنا ہوتا ہے اور اس معاہدہ کو رجسٹرڈ کیا جاتا ہے۔ معاہدہ کی حقیقی کاپی کرایہ دار کو دینی چاہئے اور کرایہ دار کی جانب سے ادا کئے جانے والا کرایہ کی رسید دینی ہوگی۔ مالک مکان اور کرایہ دار کے درمیان کرایہ داری معاہدہ میں صراحت کردہ مدت کے اندر کرایہ دار قابل ادائیگی کرایہ اور دیگر چارجس یا مماثل دیگر چارجس کی پیشگی رقم مالک مکان کو دیتا ہو، وہ رسید قبولیت کا مستحق ہوگا جبکہ یہ رقم مالک مکان یا اس کے جائیداد کے مینیجر کی خدمات حاصل کی ہو تو ضروری ہے کہ مالک مکان کرایہ دار کو حسب ذیل معلومات فراہم کرے۔ (1) جائیداد کے مینیجر کا نام (2) اس بات کا ثبوت کے وہ مالک مکان کا ایجنٹ ہے اور مالک مکان نے اسے ملازم رکھا ہے (3) اگر جائیداد مینیجر کی یا کمپنی کی ہو تو کمپنی یا ملازم کا نام جس سے کرایہ داری معاہدہ وغیرہ کے سلسلے میں ربط پیدا کیا جاسکتا ہے۔ مندرجہ ذیل باتیں جائیداد کے مینیجر کی کارکردگی میں شامل کی جاسکتی ہیں۔
(1) رسید کے ذریعہ کرایہ کی وصولی (2) مالک مکان کی جانب سے ضروری مرمت کروانا (3) وقتاً فوقتاً مکان کا معائنہ (4) کرایہ دار (کرایہ داران) کو مندرجہ ذیل باتوں کیلئے نوٹس جاری کرنا۔ اس کے علاوہ کسی تحریری Contract کے بعد مالک مکان اور کرایہ داری کی شروعات کے وقت جس حالت میں عمارت حاصل کی گئی ہو، اسے اسی طرح اُچھا رکھنے کے پابند ہوں گے۔ اگر عمارت استعمال سے متاثر ہو تو علی الترتیب اس کی مرمتوں اور دیکھ بھال کے ذمہ دار ہوں گے۔ مدت کرایہ داری اس قانون کی شروعات کے بعد سے تمام اقسام کی کرایہ داریاں کچھ مدت کیلئے ہوں گے جس پر مالک مکان اور کرایہ دار نے اتفاق کیا اور جس کی کرایہ داری معاہدہ میں صراحت کی گئی ہو، کرایہ داری مدت کے اختتام سے قبل کرایہ داری معاہدہ میں اتفاق کردہ مدت کے اندر کرایہ دار اپنی کرایہ داری کی توسیع کیلئے رجوع ہوسکتا ہے اور اس پر مالک مکان کو اتفاق ہو تو کرایہ دار باہمی متفقہ شرائط اور قواعد کی بنیاد پر نیا کرایہ داری معاہدہ (سمجھوتہ) کرسکتا ہے۔ مرکزی کابینہ کی جانب سے 2 جون 2021ء
(The Model Tenancy Act 2021)
کو منظوری دی گئی ہے جس کے ذریعہ مالک مکان اور کرایہ دار کو ایک تحریری معاہدہ پر دستخط کرنا ہوگا جس میں کرایہ، مدت کرایہ داری اور دیگر شرائط کی تشریح کی جاتی ہے۔ سکیورٹی ڈپازٹ کیلئے 2 ماہ کے کرایہ کی شرط رکھی گئی ہے جو مقامات کیلئے اور غیررہائشی مقامات
(Non-Residendial Premises)
کیلئے 6 ماہ کرایہ پر مبنی سکیورٹی ڈپازٹ کی حد مقرر کی گئی ہے۔ اس قانون کے تین حصوں پر مشتمل مبنی نیم عدالتی فیصلہ میکانزم مقرر کیا گیا ہے۔
The Model Act establishes a three – tier quasi – Judicial dispute adjudication Mechanism Consisting of : (1) Rent Authority (2) Rent Court and (3) Rent Tribunal – No Civil Court Will have Jurisdiction Over Matters Pertaining to Provisions under the Model Act.

یہاں اس بات کا تذکرہ مناسب رہے گا کہ مکاندار اور کرایہ دار دونوں کے مختلف حقوق اور فرائض ہیں جس کی پابندیوں کی جانی چاہئے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ مکانات یا روم (Migrant) خاندانوں کو اضافی کرایہ کی لالچ میں دیئے جارہے ہیں جبکہ بعض اوقات ایک ہی روم میں 5 تا 8 افراد جو مختلف مقامات پر کام کرتے ہیں، انہیں ایسے مکانات یا روم کرایہ پر دیئے جاتے ہیں اور ان سے بھاری کرایہ حاصل کیا جاتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ موجودہ دور میں بعض مکانداروں کی تانا شاہی کھلونا ہوچکی ہے اور وہ بے گھر لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ناجائز دباؤ ڈال کر ان سے زیادہ کرایہ وصول کررہے ہیں جبکہ مقامی طور پر کام کرنے والے بالخصوص کم آمدنی والے طبقات کے لوگ مجبوراً اپنی ضروریات کا گلا گھوٹتے ہوئے اور اپنے کھانے پینے کے اخراجات میں ناقابل برداشت کمی کرتے ہوئے دولت کی حرص و ہوس رکھنے والے بعض مکاندار کی خواہش کی، کسی نہ کسی طرح تکمیل پر مجبور ہوجاتے ہیں اور وہ مثال دیتے ہیں کہ فلاں شخص 10 ہزار روپئے دے رہا ہے لہذا آپ بھی اتنا ہی کرایہ ادا کرے، ورنہ آپ کو مکان نہیں ملے گا۔ ضرورت مند لوگ مجبور ہوکر بعض مکانداروں کی ناجائز شرائط کی تکمیل پر مجبور ہوجاتے ہیں جو اس کیلئے کرایہ ناقابل برداشت ہوتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض مکانداروں کو اس بات کا کوئی احساس نہیں ہوتا ہے کہ وہ بدستور بھاری کرایہ کی ادائیگی پر اصرار کرتے ہیں، موجودہ دور میں حیدرآباد میں بیرونی مراکز کی بڑی تعداد کام کررہی ہیں اور گروپس کی شکل میں مکانات یا روم کرائے پر لیتے ہیں اور بعض مالک مکان اس صورتحال پر بُری طرح استحصال کرتے ہیں۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ بعض مکان داروں کی گزر بسر کا انحصار مکانات کے کرایوں پر ہی ہوتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر کرایہ دار کے پاس کوئی مہمان یا ملاقاتی آتا ہے تو اس کی کار یا بائیک کو مکان کے پارکنگ علاقے میں رکھنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔ پانی وغیرہ مناسب مقدار میں فراہم نہیں کرتے ہیں جس سے کرایہ داروں کو شدید تکلیف پہونچتی ہے۔ کرایہ دار کو بھی چاہئے کہ مکان کو صاف ستھرا اور اچھا رکھیں اور کرایہ کی ادائیگی میں پابندی کرے اور پانی کا بے دریغ استعمال نہ کرے۔ مکان دار کے بغیر اجازت عمارت میں کوئی مرمت کا کام نہ کرے۔ اگر عمارت استعمال سے متاثر ہوتی ہے تو اس کی مرمت کی ذمہ داری کرایہ دار اور مکان دار دونوں کی ہوتی ہے۔ اگر کرایہ دار کی جانب سے عمارت میں جیسے ساکٹ، ڈرینج وغیرہ اور
White Wash
کی ذمہ داری کرایہ دار پر ہوگی۔ اس سلسلے میں اگر مکان دار اور کرایہ دار میں کسی وجہ سے تنازعہ ہوجائے تو فریقین کو چاہئے کہ مل جل کر اپنے مسائل کی یکسوئی کرلیں اور ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے شکایت کی گنجائش نہ رکھے تاکہ کرایہ دار اور مکاندار کے درمیان تنازعہ عدالت تک نہ پہونچے ۔یہاں اس بات کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا کہ بعض لوگ اراضیات پر غاصبانہ قبضہ کرتے ہیں ۔ شاید اس دنیا میں ایک گھناؤنے جرم کی سزا قانون نہ دلاسکے لیکن یوم حشر کے دن خالق کائنات کی عدالت میں ان غاصبوں کو عبرتناک سزائیں دی جائیں گی اور بعدازاں ان کے پچھتاوے سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی کسی کی ایک ’اینٹ‘ زمین پر بھی ناجائز قبضہ کرلے تو اللہ اس کے گلے میں ساتھ زمینوں طوق ڈالیں گا۔ یہ ایسی سزا ہوگی جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اسلام میں سود کو محض اس لئے حرام قرار دیا ہے کہ اس سے قرض حاصل کرنے کی مجبوری کا قرض دہندہ ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ موجودہ دور میں بعض لوگ کسی کی مجبوری سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ناجائز دباؤ ڈال کر ان کی زمین ہڑپ لیتے ہیں جبکہ ان لوگوں کو چاہئے کہ یوم حشر کا تصور کرتے ہوئے اللہ کے آگے جوابدہ ہونے کا تصور کرلے۔ مذکورہ بالا حالات میں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہوگا کہ دستور ہند کے تحت ہر شہری کو بنیادی ضروریات بشمول روٹی، کپڑا اور مکان کی فراہمی حکومت کا اولین فریضہ ہوتا ہے۔ اگر حکومت یہ نہ کرسکے تو اس کی نااہلیت ثابت ہوتی ہے اور اقتدار پر فائز رہنے کی قابل نہیں ہوتی ہے۔ ضروری ہے کہ ہر شہری کو رہنے کیلئے مکان فراہم کیا جائے۔
Ph:8074692806