کرناٹک۔ حجابی اسٹوڈنٹس کو ”دہشت گرد“ پکارنے والے بی جے پی لیڈرکو ملا ٹکٹ

,

   

اڈوپی گورنمنٹ پی یو گرلز کالج کی ڈیولپمنٹ کمیٹی کے نائب صدر ہیں سوارنا جو حجاب مسلئے کا مرکز رہا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 10مئی کے روز ہونے والے ریاستی اسمبلی الیکشن میں کرناٹک کے ضلع اڈوپی کے رکن اسمبلی رگھو پتی بھٹ کی امیدواری کو مسترد کردیاہے۔ان کے بجائے یشپال سوارنا جس نے حجابی اسکولی لڑکیوں کو ”دہشت گرد“ قراردیا تھا وہ مقابلہ کریں گے۔

اس پر مایوس بھٹ نے چہارشنبہ کیر وز رپورٹرس سے بات کیا اور کہاکہ اگر چھ ماہ قبل انہیں جانکاری دی جاتی کہ پارٹی امیدواروں کا انتخاب ذات پات کے عنصر پر ہوگا تو پارٹی کے سینئر لیڈر کے ایس ایشوراپا کا راستہ اختیار کرلیتے۔

منگل کے روز انتخابی سیاست سے ایشوراپا نے ریٹائر منٹ کا اعلان کردیاتھا۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق ایشوارپا کا فیصلہ اپنے بیٹے کے ای کانتیش کے لئے شیو ا موگا اسمبلی حلقہ سے امیدواری کی راہ ہموار کرنا تھا۔ انہوں نے رپورٹر س کو بتایاکہ ”میرے تمام پارٹی قائدین نے مجھے آخری منٹ تک بتایاکہ کم ازکم دو برہمن امیدوار میدان میں اتاریں گے۔

سیٹ کے لئے میں نے ماحول نہیں بنایا۔ میں نے ایمانداری کے ساتھ اڈوپی میں پارٹی کی تعمیرکی ہے۔ اب پارٹی کو میری ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ پارٹی آب کافی پھل پھول گئی ہے“۔راگھو پتی بھٹ برہمن کمیونٹی سے ہیں اور اڈوپی ضلع میں تین مرتبہ کے فاتح ہیں۔

منگل تک مذکورہ رکن اسمبلی ایک ٹکٹ ملنے کا یقین تھا۔ تاہم حالیہ فیصلے نے انہیں تکلیف دی ہے۔ انہوں نے رپورٹرس کو بتایاکہ ”وہ پارٹی کے فیصلے سے مایوس نہیں ہیں۔ مگر انہیں تکلیف پارٹی کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کے طریقہ کار سے ہے“۔

اڈوپی گورنمنٹ پی یو گرلز کالج کی ڈیولپمنٹ کمیٹی کے نائب صدر ہیں سوارنا جو حجاب مسلئے کا مرکز رہا ہے۔مذکورہ 45سالہ لیڈر کا خاندان کی وابستگی راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ سے ہے۔سورانا نے بجرنگ دل او راے بی وی پی میں سرگرمی کے ساتھ کام کیا ہے۔

میویشیوں کی تسکری کے معاملے میں ایک والد اور اس کے بیٹے کو سڑک پر برہنہ پریڈ کرانے کے لئے معاملے میں سوارنا کو 2005میں گرفتار کرلیاگیاتھا۔ تاہم ایک خصوصی عدالت نے اس کو بری کردیاتھا۔ دکشانا کننڈا اور اڈوپی ضلع کے فش مارکٹینگ فیڈریشن کا وہ صدر بھی ہے۔

اڈوپی میں بڑی تعداد میں پسماندے طبقات برائے بیلا واس‘ بونتس اور موگا ویراس بستے ہیں۔ ساحلی کرناٹک میں یہ کہتا جاتا ہے کہ جس پر سمندر پر کنٹرول رہتا ہے اسی کا علاقے پر بھی کنٹرول رہتا ہے