کرناٹک میں انتخابی مہم کا اختتام

   

احباب کے خلوص کا سب کھل گیا بھرم
آئینہ بھی کسی نے دکھانے نہیں دیا
کرناٹک میں انتخابی مہم اپنے اختتام کو پہونچی ۔ ابتداء میں سست روی سے آغاز کے بعد اس مہم میں بتدریج تیزی اور گرمی آتی گئی ۔ آخری اور اختتامی مراحل تک پہونچتے پہونچتے یہ مہم انتخابی سے زیادہ مذہبی رنگ اختیار کرتی نظر آئی بلکہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ اس مہم کو مذہبی رنگ عمدا دیدیا گیا کیونکہ سیاسی کاوشیں کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہی تھیں۔ مذہبی رنگ دیتے ہوئے مذہبی نعروں کے ساتھ یہ انتخابی مہم اختتام کو پہونچائی گئی ۔ اس وقت سے کرناٹک میں انتخابی عمل کا آغاز ہوا اس وقت سے ہی بی جے پی کیلئے حالات سازگار دکھائی نہیں دے رہے تھے ۔ بی جے پی نے حالات پر قابو پانے کی اپنے طور پر ہر ممکن جدوجہد کی تاہم اسے کامیابی نہیں مل سکی ۔ اس نے نئے چہرے متعارف کرواتے ہوئے حکومت مخالف لہر سے نمٹنے کی حکمت عملی اختیار کی تھی تاہم سینئر قائدین نے ٹکٹ سے محرومی پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے پارٹی ہی چھوڑ دی اور وہ کانگریس میں شامل ہوگئے ۔ کانگریس کے حوصلے پہلے ہی راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا سے مستحکم تھے اور بعد کے حالات نے بھی پارٹی کو حوصلہ ہی دیا تھا ۔ بی جے پی نے ابتداء میں ریاستی اور مقامی مسائل تک خود کو بھی محدود رکھنے کی کوشش کی تھی لیکن اس نے عوام کے موڈ کو بعد میں بھانپ لیا اور پھر وہی مذہبی منافرت پھیلانے والی حکمت عملی اختیار کرلی ۔ مقامی مسائل کو کہیں پس پشت ڈالتے ہوئے ایسے مسائل کو اٹھانے کی حکمت عملی اختیار کی گئی جن کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی نے ریاستی چیف منسٹر یا ریاستی قائدین کے نام پر ووٹ بھی نہیں مانگا بلکہ اس نے محض وزیر اعظم نریندر مودی کے نام پر ووٹ مانگنے کی کوشش کی ہے اور ان کی عوامی مقبولیت کو ووٹ میں تبدیل کرنے کی حکمت عملی اختیار کی تھی تاہم اس کی کامیابی یقینی نہیں ہے ۔ انتخابی مہم کو اختتامی مراحل تک جو رنگ دیدیا گیا تھا وہ انتہائی نامناسب اورا فسوسناک کہا جاسکتا ہے کیونکہ ریاست کے عوام کے مسائل پر اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے عوام کے ووٹ حاصل کرنے کی بجائے مذہبی منافرت پھیلانے کی پالیسی اختیار کی گئی ۔
جس طرح سے بی جے پی کے قائدین نے ٹیپو سلطان کا مسئلہ اٹھانے کی کوشش کی ‘ اسی طرح بجرنگ بلی اور اللہ اکبر کے نعروں کا مقابلہ شروع کردیا گیا ۔ جہاں بی جے پی نے مذہبی نعرہ لگایا تو اس نے اپنے حواریوں کے ذریعہ بھی اسی طرح مذہبی نعروں کو یقینی بناتے ہوئے سماج میں یکجہتی پیدا کرنے کی بجائے نفرتوں کو ہوا دینے کی کوشش کی ۔ بی جے پی کو شائد یہ احساس ہوچلا تھا کہ وہ ریاست میں اپنے اقتدار کو بچانے میں کامیاب نہیں ہو پائے گی ۔ اس نے ریاست میں چور دروازے سے حاصل کردہ اقتدار سے عوام کیلئے وہ کام نہیں کئے جس کی عوام کو امید تھی ۔ ریاستی حکومت پر کرپشن اور بدعنوانیوں کے سنگین الزامات عائد تھے ۔ اس پر بھی حکومت اور بی جے پی کے مرکزی قائدین کوئی جواب نہیں دے سکے ۔ کانگریس نے ان ناکامیوں کو اچھی طرح سے اجاگر کرتے ہوئے عوام کے درمیان پیش کرنے کی کوشش کی تھی ۔ ریاستی قائدین کی ناکامیوں کو دیکھتے ہوئے امیت شاہ اور وزیر اعظم مودی نے انتخابی مہم کی کمان سنبھالی ۔ ابتداء میں کانگریس کو نشانہ بنانے کے بعد شائد انہیں بھی احساس ہوچلا تھا کہ حالات پارٹی کے حق میں نہیں ہیں۔ اسی لئے ان قائدین نے بھی مذہبی جذبات کا استحصال کرنے جیسے بیان اور تقاریر کا آغاز کردیا ۔ انتہائی متنازعہ اور بے بنیاد دعووں کے ساتھ بنائی گئی فلم دی کیرالا فائیلس کا تک سہارا لینے کی کوشش کی گئی ۔ یہ سب کچھ ہوا لیکن ریاستی حکومت پر عائد الزامات کا کسی بھی بی جے پی لیڈر کی جانب سے جواب نہیں دیا گیا ۔
انتخابات ایک ریاست کے تھے اور ریاست کے مسائل پر توجہ کی ضرورت تھی ۔ کانگریس نے ریاستی مسائل پر توجہ کی ۔ عوام کو راحت اور سہولیات فراہم کرنے کے وعدے کئے گئے ۔ ان کی عزت نفس کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی ۔ ریاستی مسائل پر ریاستی قائدین کے ذریعہ اچھی توجہ کے ساتھ مہم چلائی گئی ۔ عوام کا اعتماد جیتنے کیلئے مثبت حکمت عملی سے کام لیا گیا جبکہ بی جے پی کی ساری مہم منفی سوچ پر مبنی نظر آئی ۔ اب جبکہ انتخابی مہم کا اختتام عمل میں آچکا ہے ۔ ماحول تھم سا گیا ہے ۔ ریاست کے رائے دہندوں کیلئے موقع ہے کہ وہ سارے حالات کا جائزہ لیں اور پوری فہم و فراست کے ساتھ اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔