کرناٹک میں بدلتے سیاسی حالات

   

پڑوسی ریاست کرناٹک میں اسمبلی انتخابات کا کسی بھی وقت اعلان ہوسکتا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کے شیڈول کی تیاریاں جاری ہیں۔ کمیشن مختلف امور کا جائزہ لینے میں مصروف ہے ۔ ایسے میں ریاست میں سیاسی سرگرمیوں میں تیزی پیدا ہوتی جا رہی ہے ۔ سیاسی جماعتیں انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے خود کو تیار کر رہی ہیں اور عوام پر اثر انداز ہونے کیلئے اپنے طور پر اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ ریاست میں بی جے پی کی حکومت ہے ۔ اس نے کانگریس اور جے ڈی ایس میں انحراف کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ریاست میں پچھلے دروازے سے اقتدار حاصل کیا تھا ۔ جنوبی ہند میں کرناٹک واحد ریاست ہے جہاں بی جے پی کو اقتدار حاصل ہے ۔ ایسے میں بی جے پی یہاں اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے ہر ممکن جدوجہد کر رہی ہے ۔ ہر ہتھکنڈہ اختیار کرتے ہوئے کامیابی حاصل کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ ریاست میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ مذہبی نوعیت کے مسائل کو ہوا دیتے ہوئے عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے ایسے مسائل کو ہوا دی جا رہی ہے جن کا عوام کی فلاح و بہبود سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ مسائل صرف بی جے پی کو سیاسی فائدہ پہونچانے میں معاون ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی اس طرح کے مسائل کو ہوا دے رہی ہے ۔ تاہم جو آثار و قرائن ہیں اور جو اوپینین پول اب تک سامنے آئے ہیں ان کے مطابق کرناٹک میں بی جے پی کیلئے اپنا اقتدار بچانا آسان نہیں رہے گا ۔ ریاست میں کانگریس کے حق میں رائے عامہ پائی جاتی ہے ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کانگریس ریاست میں اپنے بل پر اقتدار حاصل کرسکتی ہے ۔ راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کے کرناٹک سے گذرنے کے بعد سے ریاست میں کانگریس کے حق میں لہر پیدا ہوئی ہے اور ریاستی قائدین اس لہر کو برقرار رکھنے میں اب تک بھی کامیاب رہے ہیں۔ بی جے پی کیلئے ریاست میںسیاسی اور انتخابی حالات مشکل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
حالات کا قبل از وقت اندازہ کرتے ہوئے بی جے پی کے کچھ قائدین اپنی پارٹی کو چھوڑ کر کانگریس میں شامل ہو رہے ہیں۔ اب تک دو ارکان مقننہ نے بی جے پی سے ترک تعلق کرلیا ہے اور وہ کانگریس میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ کئی اور قائدین ہیں جو انتخابات کے قریب تک بھی بی جے پی سے ترک تعلق کریں گے اور وہ کانگریس کے ساتھ آ ملیں گے ۔ اس کے علاوہ بی جے پی نے جو منصوبہ بنایا ہے کہ موجودہ تمام ارکان اسمبلی کو دوبارہ ٹکٹ دیا جائیگا ایسے میں کئی اور قائدین بی جے پی سے ترک تعلق کرسکتے ہیں۔ جو قائدین پارٹی ٹکٹ کے خواہشمند تھے وہ دوسری جماعتوں سے آ کر پارٹی میں شامل ہوئے قائدین کو دوبارہ ٹکٹ دئے جانے کی مخالفت کر رہے ہیں اور وہ خود کو دعویدار کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ اگر ایسے میں بی جے پی موجودہ ارکان اسمبلی ہی کو برقرار رکھتی ہے تو اس کیلئے مزید ناراضگیوں اور اختلافات کو کم کرنا مشکل ہوتا چلا جائیگا ۔ اس کے علاوہ ریاستی حکومت پر کرپشن کے جوا لزامات عائد ہوتے چلے جا رہے ہیں ان کی وجہ سے بھی عوام میں اس تعلق سے بے چینی پائی جاتی ہے ۔ رشوت اور کرپشن کے الزامات کے نتیجہ میںبی جے پی کی ایس آر بومائی حکومت کی عوامی مقبولیت کا گراف بھی گھٹتا جا رہا ہے ۔ کانگریس کی جانب سے ریاستی حکومت کے کرپشن اور رشوت کے الزامات کے خلاف باضابطہ مہم چلائی جا رہی ہے اور مختلف الزامات کو اجاگر کرتے ہوئے اس تعلق سے رائے عامہ ہموار کی جا رہی ہے ۔
حالانکہ ابھی کرناٹک میں اسمبلی انتخابات کے شیڈول کا اعلان نہیں ہوا ہے لیکن کہا جا رہا ہے کہ یہ اعلان کسی بھی وقت ہوسکتا ہے ۔ ایسے میں جو سیاسی سرگرمیاں ہیں ان میں مسلسل تیزی آتی جا رہی ہے ۔ سیاسی قائدین اپنے مستقبل کے تعلق سے فکرمند ہوتے ہوئے کشتیاں بدلنے میں کوئی عار محسوس نہیںکر رہے ہیں۔ اپنی سیاسی خواہشات کی تکمیل میںایک جماعت میں ناکام قائدین دوسری جماعت کا سہارا لینے لگے ہیں۔ یہ صورتحال بی جے پی کیلئے زیادہ مشکل والی ثابت ہو رہی ہے ۔ ان قائدین کی شمولیت سے بھی رائے عامہ پر اثر ہوتا ہے اور بی جے پی اس اثر سے محفوظ رہنے کی تدابیر پر غور کر رہی ہے تاہم تیزی سے بدلتے سیاسی منظر نامہ میں اسے اپنے حالات کی ابتری کو روکنا آسان دکھائی نہیں دیتا ہے ۔