کرناٹک ‘ کانگریس قائدین کااختلاف

   

جنوبی ہند کی ایک اہم ریاست کرناٹک میں اسمبلی انتخابات کا بگل بج چکا ہے ۔ ریاست میں10 مئی کو نئی حکومت کے انتخاب کے لئے ووٹ ڈالے جانے والے ہیں۔ 13 مئی کو نتائج کا اعلان کیا جائیگا ۔ ریاست میںانتخابی سرگرمیاں تیز ہوتی جا رہی ہیں۔ سیاسی سرگرمیاں گذشتہ چند ماہ سے ہی تیز ہونے لگی تھیں۔ سیاسی انحراف اور وفاداریوں کی تبدیلیوں کا بھی موسم شروع ہوچکا تھا ۔ کئی قائدین بی جے پی سے ترک تعلق کرتے ہوئے کانگریس میںشامل ہونے لگے تھے ۔ حالیہ وقتوں تک بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ٹکٹوںکی تقسیم کے مرحلہ میں بھی ایسی سرگرمیاں اور بھی تیزی اختیار کرسکتی ہیں۔جو آثار و قرائن ہیں ان کے مطابق کہا جا رہا ہے کہ ریاست میں بی جے پی کیلئے اپنے اقتدار کو بچانا مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ کانگریس کے حق میں ریاست کے عوام میں ایک عمومی رائے پائی جاتی ہے اور ریاست میں کانگریس پارٹی اقتدار پر واپسی کرسکتی ہے ۔ کچھ میڈیا گھرانوںکے سروے میں بھی کانگریس کی اقتدار پر واپسی کی بات کی جا رہی ہے ۔ کانگریس قائدین اور کارکنوںمیں بھی جوش و خروش دیکھا جانے لگا ہے ۔ کانگریس اپنے کئی امیدواروں کا اعلان کرچکی ہے اور کئی امیدواروں کا اعلان کیا جانا باقی ہے ۔ ایسے میں ایک بحث شروع ہوگئی ہے کہ ریاست میں اقتدار حاصل ہونے کی صورت میں کس قائد کو چیف منسٹر کی ذمہ داری سونپی جائے گی ۔ کہا جا رہا ہے کہ دو اصل دعویدار ہیں ۔ ایک سابق چیف منسٹر سدارامیا ہیں اور ایک موجودہ صدر پردیش کانگریس ڈی کے شیو کمار ہیں۔ ڈی کے شیوکمار کانگریس کے مرد بحران کہے جاتے ہیں۔ انہوںنے مشکل وقت میں پارٹی کو سنبھالا اور اسے مستحکم کرنے میں انہوں نے اہم رول نبھایا ہے ۔ بی جے پی کی سیاسی سازشوںکو انہوں نے روکے رکھا اور بی جے پی کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے میں بھی انہوں نے اہم رول ادا کیا تھا ۔ سدا رامیا پارٹی کے سینئر قائدین میں شمار ہوتے ہیں اور ان کی بھی عوامی مقبولیت ہے ۔ وہ سابق میں بھی چیف منسٹر کی ذمہ داری نبھا چکے ہیںاور وہ اب بھی اس عہدہ کے ایک طاقتور دعویدار کہے جا رہے ہیں۔
چیف منسٹر کا عہدہ ہر اہل سیاسی لیڈر کا خواب ہوتا ہے ۔ عوامی تائید سے اس عہدہ تک پہونچنا ایک بڑی کامیابی ہی کہی جاسکتی ہے اور اس کے ذریعہ ریاست اور ریاست کے عوام کی خدمت کی جاتی ہے ۔ تاہم کانگریس قائدین کا جہاں تک سوال ہے وہ قبل از وقت اس مسئلہ پر بیان بازیوںمیںمصروف ہونے لگے ہیں۔ چیف منسٹر کا انتخاب ‘ انتخابی نتائج کے بعد کا مرحلہ ہے ۔ اس وقت بھی ارکان اسمبلی کی مرضی اور ہائی کمان کے مشورہ کے مطابق یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے اور یہی ایک موثر اور درست طریقہ کار ہے ۔ فی الحال کانگریس کے ہر لیڈر اور ہر کارکن کی یہی ذمہ داری ہونی چاہئے کہ وہ جتنا ممکن ہوسکے عوام میں جائیں۔ عوام کو پارٹی کے حق میں کرنے کی جدوجہد میں کسی کوتاہی کا مظاہرہ نہ کریں۔ زیادہ سے زیادہ عوامی تائید حاصل کرتے ہوئے پارٹی کی اقتدار پر واپسی کو یقینی بنانے کیلئے جدوجہدکرے ۔ اس احساس ک شکار ہوکر نہ رہ جائیں کہ کسی بھی حال میں ان کی پارٹی کو اقتدار حاصل ہو رہا ہے ۔ لمحہ آخر تک بھی سیاسی صورتحال میں کسی بڑی تبدیلی کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ عوامی رائے کو برقرار رکھنے اور حکومت کے خلاف احساسات کو ووٹ میں تبدیل کرنے کی جدوجہد کو یقینی بنانا چاہئے۔ زیادہ سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کے نشانہ کے ساتھ اور زیادہ سے زیادہ اکثریت حاصل کرنے کے مقصد کے ساتھ سبھی کو کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ چیف منسٹر کا انتخاب کامیابی کے بعد کا مرحلہ ہے اور ابھی سے اس پر مباحث نہیں ہونے چاہئیں۔
اس عہدہ کے جتنے بھی دعویدار ہیں ان سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی اس مسئلہ پر بیان بازیوںسے گریز کریں۔ عوام میں پارٹی کا ایک متحدہ اور مستحکم پیام دینے کی کوشش کریں۔ جو رائے ذاتی ہے اس کے اظہار سے گریز کیا جائے ۔ عوام میں کسی طرح کی الجھن یا غلط فہمی پیدا ہونے کا موقع فراہم کئے بغیر کام کرنا چاہئے ۔ اختلافی مسائل پر اظہار خیال کیلئے یہ موقع مناسب نہیں ہے اور نہ ہی وقت درست ہے ۔ فی الحال صرف حکومت کے خلاف رائے عامہ کو مستحکم کرنے اور اسے پارٹی کے حق میں کرنے کیلئے ہر لیڈر ‘ ہر کارکن اور ہر حامی کو کوشش کرنی چاہئے ۔ یہی وقت کا تقاضہ ہے اور پارٹی اور قائدین کے مستقبل کیلئے ضروری ہے۔