کرناٹک کی انتخابی مہم

   

جنوبی ہند کی ایک اہم ریاست کرناٹک میں انتخابات کا وقت چل رہا ہے ۔ ریاست میں انتخابی مہم بتدریج شدت اختیار کرچکی ہے اور آئندہ دنوں میں اس مہم میں مزید شدت بھی پیدا ہوگی ۔ ریاست میں بی جے پی کی جانب سے اپنے اقتدار کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے ۔ یہ اقتدار بھی بی جے پی نے پچھلے دروازے سے حاصل کیا تھا ۔ اس کیلئے کانگریس اور جے ڈی ایس میں انحراف کی حوصلہ افزائی کے ذریعہ حاصل کیا گیا تھا ۔ ریاست میں سینئر لیڈر بی ایس یدیورپا کو چیف منسٹر کے عہدہ سے ہٹاتے ہوئے ان کی بجائے بسوا راج بومائی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی ۔ بی جے پی کو اب حالات کا اندازہ ہونے لگا ہے کہ وہ ریاست میں مشکل صورتحال کا شکار ہوگئی ہے ۔ ریاستی حکومت کے خلاف عوام میں ناراضگی پائی جاتی ہے ۔ حکومت پر رشوت اور بدعنوانیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کا الزام ہے ۔ ریاست میں کئی بی جے پی قائدین اور وزراء کے خلاف بھی کرپشن کے الزامات عائد ہوئے ہیں۔ کئی قائدین کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں کی گئی جس کی وجہ سے بھی یہ مسائل پیدا ہونے لگے ہیں۔ کئی قائدین کو پارٹی کی جانب سے ٹکٹ سے محروم کرتے ہوئے مخالف حکومت لہر سے مقابلہ کی حکمت عملی بنائی گئی ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ گجرات کی حکمت عملی کرناٹک میں بی جے پی کیلئے کامیابی کی ضمانت نہیں ہوگی کیونکہ کئی سینئر قائدین نے ٹکٹ نہ دئے جانے پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے ۔ پارٹی پر تنقید کی ہے اور کئی قائدین نے پارٹی بھی چھوڑ دی ہے ۔ کچھ قائدین کانگریس میں شامل ہوگئے تو کچھ قائدین آزاد امیدوار کی حیثیت سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ ریاست میں کانگریس کے حق میں رائے عامہ دکھائی دے رہی ہے اور کانگریس کی انتخابی مہم بھی پوری شدت سے چلائی جا رہی ہے ۔ راہول گاندھی انتخابی مہم میں کود پڑے ہیں۔ ان کے خلاف حالیہ عرصہ میں جو کارروائیاں کی گئی ہیں ان کے پیش نظر راہول گاندھی عوام کی توجہ کا مرکز بھی بن گئے ہیں۔ ان کی ریلیوں میں عوام کی خاطر خواہ تعداد شریک ہو رہی ہے اور اس عوامی رد عمل کی وجہ سے بی جے پی کی پریشانیوں میں اضافہ ہوگیا ہے ۔
بی جے پی نے ریاست میں انتخابی مہم کے دوران متنازعہ مسائل کو ہوا دینے کی کوشش کی تھی لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کا بھی ریاست کے عوام پر کوئی خاص اثر نہیں ہو رہا ہے ۔ بی جے پی نے حجاب ‘ حلال اور دوسرے مسائل پر سیاست کرنے کی کوشش کی اور کرپشن اور بے روزگاری و مہنگائی جیسے مسائل پر اس نے کوئی توجہ نہیں دی یہی وجہ ہے کہ عوام حکومت سے ناراض نظر آتے ہیں۔ حجاب کے مسئلہ کو جو طوالت دی گئی ہے اس نے سارے ملک کی توجہ حاصل کی تھی لیکن یہ توجہ انتخابی فائدہ کی صورت میں تبدیل ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے ۔ اس کے علاوہ حلال گوشت کا مسئلہ بھی بی جے پی کی جانب سے اٹھانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن اس پر بھی کوئی خاص عوامی رد عمل حاصل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ ٹیپو سلطان کے مسئلہ پر بھی پارٹی نے بہت کچھ سیاست کرنے کی کوشش کی تھی ۔ ٹیپو سلطان کو نشانہ بناتے ہوئے اپنے ہندوتوا ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کی حکمت عملی اختیار کی گئی تھی لیکن اس کا بھی عوام سے کوئی خاص فائدہ بی جے پی کو انتخابات میں ملتا دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ دودھ کے دو بڑے برانڈز کا مسئلہ بھی اب بی جے پی کیلئے مشکل صورتحال کا باعث بن رہا ہے ۔ گجرات سے آنے والا امول دودھ اور پھر کرناٹک میں تیار ہونے والا نندنی دودھ کا ایک تنازعہ ایسے وقت میں شروع ہوا ہے جو بی جے پی کیلئے قطعی سازگار نہیں ہے ۔ بی جے پی اس مسئلہ میں نہ اگلتے ہی بنے اور نہ نگلتے ہی بنے والی صورتحال کا شکار ہوتی چلی جا رہی ہے ۔
جس طرح سے کرپشن کے مسئلہ کو کانگریس کی جانب سے انتخابی مسئلہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کے آگے بی جے پی کے دوسرے مذہبی منافرت والے مسائل عوامی توجہ حاصل نہیں کرپا رہے ہیں۔ بی جے پی نے پوری کوشش کی تھی کہ ہندوتوا ایجنڈہ کو موضوع بناتے ہوئے انتخابات میں کامیابی حاصل کی جائے ۔ تاہم ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے ایسے میں بی جے پی کی جانب سے مودی کی مقبولیت کا سہارا لینے اور صرف وزیر اعظم کی شخصیت کو موضوع بناتے ہوئے مہم چلائی جا رہی ہے ۔ عوام یا اپوزیشن جو سوال کر رہے ہیں ان کا کوئی جواب دینے کے موقف میں بی جے پی نہیں ہے ۔ ایسے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ کرناٹک کی انتخابی مہم بی جے پی کیلئے اس کی توقع سے زیادہ مشکل ہوتی جا رہی ہے ۔