کرناٹک :ہائیکورٹ کے عبوری حکم پر عمل ، باحجاب طالبات کو ’نواِنٹری‘

,

   

بنگلورو : کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی سے متعلق کیس کی سماعت پیر کو منگل تک کے لئے ملتوی کردی گئی لیکن آج کئی اسکولس اور کالجس میں متعلقہ حکام نے ہائیکورٹ کے 10 فبروری کو دیئے گئے عبوری حکمنامہ پر عمل کرتے ہوئے طالبات اور ٹیچروں کو عملاً ادارے میں ’’نو اِنٹری‘‘ کے تحت واپس بھیج دیا۔ ضلع مانڈیا جہاں مسکان خان نے زعفرانی کھنڈوے لگائے شرپسند عناصر کے مقابل زبردست مزاحمت کا مظاہرہ کیا تھا ، وہاں چند تعلیمی اداروں میں طالبات اور ٹیچروں کو اسکارف اور حجاب کے ساتھ داخلہ سے روک دیا۔ ایک جگہ اسکول کے باہر والدین اور اساتذہ میں بحث و تکرار ہوئی۔ اُس کے باوجود طالبات کو حجاب نکال کر اسکول میں جانا پڑا۔ دوسری طرف ہائیکورٹ میں حجاب سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ۔ طالبات کے وکیل نے کہاکہ امن و امان کا بہانہ بناکر کوئی بھی اسکول یا کالج انتظامیہ طالبات کو حجاب لگانے سے نہیں روک سکتا ۔ اسکارف اور حجاب لگانے والی مسلم لڑکیاں ، خواتین اور ٹیچرس کسی کیلئے بھی خطرہ نہیں ہے ۔ سینئر ایڈوکیٹ دیودت کامت نے چیف جسٹس ریتو راج اوستھی ، جسٹس کرشنا ڈکشٹ اور جسٹس زیب النساء محی الدین پر مشتمل بنچ کو دلائل پیش کئے کہ مذہبی آزادی صرف اُسی وقت روکی جاسکتی ہے جب لاء اینڈ آرڈر کا کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہو ۔ ہندوستانی دستور کے آرٹیکل 25 کے مطابق تمام شہریوں کو یکساں مذہبی آزادی حاصل ہے۔وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ طالبات کو حجاب کے ساتھ کلاسوں میں شرکت کی اجازت دی جائے ۔ دوران سماعت سرکاری وکیل نے موقف پیش کیا کہ پہلے یہ تعین کرلیا جائے کہ آیا اسلام میں حجاب لازمی ہے ؟ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد سماعت کو منگل تک ملتوی کردیا ۔ قبل ازیں صبح میں ریاست کے اسکولس دوبارہ کھول دیئے گئے ۔ چیف منسٹر بسواراج بومئی نے عدالتی کیس کے پیش نظر احتیاطً اسکولوں کو تین روز کی تعطیل کا اعلان کیا تھا ۔
ہر کسی کو عدالتی حکم ماننا چاہئے : چیف منسٹر بومئی
اس دوران چیف منسٹر بومئی نے ریاستی اسمبلی کی بزنس اڈوائیزری کمیٹی میٹنگ میں شرکت کے بعد میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ حجاب کے تنازعہ پر ہائیکورٹ جو بھی حکمنامہ جاری کرے ، ہر کسی کو اُس کی تعمیل کرنا چاہئے ۔ حجاب کا تنازعہ ضلع اُڈوپی سے شروع ہوا جہاں طالبات کو حجاب کے ساتھ کلاسوں میں شرکت سے روکا گیا ۔ یہ تنازعہ دیگر اضلاع تک پھیل گیا ۔ چیف منسٹر نے بروقت اقدامات نہیں کئے اور آج یہ معاملہ ہائیکورٹ میں قانونی کشاکش سے دوچار ہے ۔