کرناٹک ہائی کورٹ میں حجاب معاملے پر سنوائی جاری ہے

,

   

وجئے واڑہ۔ مدھیہ پردیش اورپانڈیچری کے بعد کرناٹک سے شروع ہونے والے حجاب معاملے کی رسائی اب آندھرا پردیش میں بھی ہوگئی ہے۔ وجئے واڑ ہ میں لویولا کالج حجاب پہننے والی اسٹوڈنٹس کو کلاسیس میں شامل ہونے سے روک دیاگیاہے۔

مذکورہ اسٹوڈنٹس کاکہنا ہے اس سے قبل انہیں اس طر ح کے معاملے کا کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا ہے اور ان کے ائی ڈی کارڈس پر بھی ان کی تصویریں برقعہ میں ہیں۔

اس معاملے کوحل کرنے کے لئے والدین‘ اور کمیونٹی کے بڑوں نے کالج پرنسپل اور پولیس سے بات کی ہے۔

ضلع کلکٹر کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے مذکورہ کالج کے پرنسپل فادر کشور نے دو لڑکیوں کوکلاس روم میں جانے کی اجازت دی ہے۔

1

ایم پی اورپانڈیچری میں حجاب معاملہ
حال ہی میں مدھیہ پردیش کے ضلع داتیا کے اگرنی سرکاری خودمختار ادارے پی جی کالج نے ”مخصوص مذہبی“ لباس کے استعمال سے گریز کا استفسار کیاہے۔

یہ سرکولر اس وقت جاری کیاگیا جب کالج کے احاطہ میں حجاب کا استعمال کرنے والے اسٹوڈنٹس کے خلاف بھگوا شال دھاری اسٹوڈنٹس کے احتجاج کیاتھا۔اسی طرح کا ایک واقعہ پانڈیچری میں بھی پیش آیا‘ آریانکوپم کے ایک سرکاری اسکول میں مسلم لڑکی کو حجاب کے ساتھ کلاس میں شامل ہونے سے روک دیاگیاتھا۔


مسلم لڑکیوں کے خلاف امتیازی سلوک
حجاب پر امتناع کو چیالنج کرنے والے درخواست گذاروں کی جانب سے عدالت میں رجوع ہونے والے سینئر وکیل روی ورما کمار نے چہارشنبہ کے روز کرناٹک ہائی کورٹ میں بحث کرتے ہوئے کہاکہ پوری طرح مذہبی کی بنیاد پر مسلم لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جارہا ہے۔

اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ہندو لڑکیاں چوڑیاں اور عیسائی لڑکیاں کراس پہنتی ہیں انہیں باہر نہیں کیاجارہا ہے‘ مذکورہ سینئر ایڈوکیٹ نے پوچھا کیاحکومت کیوں صرف حجاب کونشانہ بنارہی ہے۔

کمار نے اپنے استدلال میں کہاکہ دیگر مذہبی نشانیوں کو سرکاری احکامات میں شامل کیاجانا تھا.۔ انہوں نے سوال کیا ”حجاب ہی کیوں؟ وہ ان کا مذہب کا نہیں ہے اسلئے؟“اورمزید کہاکہ مسلم لڑکیوں کے ساتھ خالص طور سے مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کیاجار ہا ہے۔

مذکورہ بنچ جو چیف جسٹس ریتو راجو اوستھی‘ جسٹس کرشنا‘ ایس ڈکشٹ اورجسٹس قاضی زیب النساء محی الدین پر مشتمل ہے نے جمعرات تک سنوائی ملتوی کردی ہے