کرپشن ‘ سی بی آئی اوروزیراعظم کا بیان

   

نئی رتوں کے تقاضے وہی پرانے ہیں
گئی رتوں کا ہر اک زخم بھر گیا شاید
کرپشن ‘ سی بی آئی اوروزیراعظم کا بیان
ملک کی اعلی ترین سمجھی جانے والی تحقیقاتی ایجنسی سی بی آئی کی ڈائمنڈ جوبلی تقریب آج منعقد ہوئی ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس میںشرکت کی ۔ وزیر اعظم نریند مودی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں کرپشن سے مقابلہ کیلئے سیاسی عزم و حوصلے کی کوئی کمی نہیں ہے اور سی بی آئی کو کرپشن ختم کرنے کیلئے کارروائی کرنی چاہئے ۔ کوئی چاہے کتنا ہی طاقتور کیوںنہ ہو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے ۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ سی بی آئی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کو کرپشن سے پاک بنائے ۔ یقینی طور پر ملک میں کرپشن کا خاتمہ ہونا چاہئے ۔ چاہے کوئی کتنا ہی طاقتور کیوںنہ ہو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے ۔ اس سارے امر میں یہ بات بھی ہونی چاہئے کہ سی بی آئی کی کارروائی میں کوئی سیاسی مداخلت بھی نہ ہونے پائے ۔ اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہئے کہ کرپشن سے نمٹنے میں کوئی سیاسی واشنگ مشین بھی کام میں نہ آنے پائے ۔ آج سارے ملک میں جو ماحول ہے وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کرپشن کے خاتمہ میں بھی سیاسی وابستگیوں کا پوری طرح سے خیال رکھا جا رہا ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قائدین کے خلاف کارروائی میں بڑی تیزی دکھائی جاتی ہے ۔کرپشن کے واقعی الزامات ہیں تو پھر ان میں تیزی ضرور دکھائی جانی چاہئے تاہم یہ کارروائیاں یکطرفہ نہیں ہونی چاہئے ۔ کرپشن ایک لعنت ہے جو سارے ملک کو مفلوج کر رہا ہے ۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوںکروڑ روپئے کے گھوٹالے اور اسکامس ہو رہے ہیں۔ عوام غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں اور کرپشن کا ارتکاب کرنے والے اربوں کھربوںروپئے کی لوٹ مار کرتے ہوئے عیش و عشرت کی زندگیاں گذار رہے ہیں۔ اگر کسی وجہ سے ملک میں ان کے خلاف طوعا و کرہا کوئی کارروائی ہو بھی رہی ہے تو وہ ملک چھوڑ کر فرار ہو رہے ہیںاور اپنی ایک نئی اور پر تعیش دنیا بساتے ہوئے مزے لوٹ رہے ہیں۔ یہ بات حقیقت ہے کہ کرپشن کے معاملے میں کوئی نرمی نہیں برتی جانی چاہئے تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ اس میں یکطرفہ کارروائی نہ ہو ۔ کسی کی سیاسی وابستگی اور قربتوں کا بھی خیال نہ رکھا جائے ۔
ہندوستان میں ہم آج کل دیکھ رہے ہیںکہ کئی قائدین کے خلاف کرپشن کے الزامات ہیں اور یہ سب عدالتی کشاکش کا شکار ہو رہے ہیں ۔ ان کے خلاف قومی تحقیقاتی ایجنسیاں پوری طرح سے سرگرم ہیں لیکن جو قائدین اچانک ہی برسر اقتدار جماعت میں شامل ہوجاتے ہیں ان کے خلاف یہ ایجنسیاں دم سادھ لیتی ہیں۔ مکمل خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے ۔ ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی ہمت نہیں کرتا ۔ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ کرپشن کے خلاف جدوجہد کو بھی سیاسی وابستگی سے جوڑ کر رکھ دیا گیا ہے ۔ آسام میں ہیمنت بسوا شرما کے خلاف کرپشن کا کتابچہ جاری کرنے والی بی جے پی نے ہی انہیں ریاست کا چیف منسٹر بنا دیا ۔ بنگال میں ترنمول قائدین کے خلاف تحقیقات شروع کی گئیں اور بی جے پی میں شمولیت پر انہیں راحت دیدی گئی ۔ مہاراشٹرا میں یہی طریقہ کار اختیار کیا گیا ۔ آندھرا پردیش میں بھی کئی قائدین کے خلاف سی بی آئی اور دوسری تحقیقاتی ایجنسیاں خاموش ہوگئی ہیں۔ اس پر کئی گوشوںسے سوال بھی کئے جا رہے ہیں لیکن جمہوریت میں جوابدہی کے عمل کو ہی ختم کیا جا رہا ہے ۔ نہ صرف سیاسی قائدین بلکہ حکومت اور برسر اقتدار جماعت سے قربت رکھنے والے تاجروں اورکارپوریٹس کے خلاف بھی یہ ایجنسیاں خاموش ہوجاتی ہیں۔ ان کے خلاف کارروائیوںکو برفدان کی نذر کردیا جاتا ہے ۔ یہ عام بات ہوگئی ہے ۔
کرپشن ایک ناسور ہے ۔ اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ کرپشن میں ملوث قائدین بھی کرپشن کے خلاف بیان بازیوںسے نہیں تھکتے ۔ تاہم کرپشن اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتا جب تک اس کے خلافجدوجہد کو سیاسی رنگ سے آزاد نہ کردیا جائے ۔ سیاسی وابستگیوں کا خیال کئے بغیر کرپشن ختم کرنے کیلئے جدوجہد کی جائے ۔ کوئی کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو ‘ کوئی مرکزی وزیر ہی کیوں نہ بن گیا ہو ‘ کوئی کسی ریاست کا چیف منسٹر ہی کیوں نہ بن گیا ہو اس کے خلاف بھی الزامات کی پوری دیانتداری اور پیشہ ورانہ مہارت سے تحقیقات کی جائیں اور انہیں کیفر کردار تک پہونچایا جائے ۔ محض زبانی جمع خرچ سے کرپشن جیسی لعنت کو نہ ختم کیا جاسکا ہے اور نہ کیا جاسکتا ہے جب تک عملی اقدامات نہ کئے جائیں۔