کسانوں کیساتھ بات چیت ناکام

   

صبح عشرت ہے نہ شامِ اضطراب
زندگی ہے اک مسلسل انقلاب
کسانوں کیساتھ بات چیت ناکام
مرکز کے گھمنڈی پن نے مسائل کا انبار لگادیا ہے ۔ ہندوستانی عوام کو ایک ہٹ دھرم حکومت کی وجہ کن کن مسائل کا شکار ہونا پڑتا ہے اس کا ثبوت کسانوں کے احتجاج سے مل جاتا ہے ۔ حکومت نے پیر کے دن کسانوں کے ساتھ 7 ویں دور کی بات چیت کی اور اپنے زرعی قوانین کو واپس لینے سے صاف انکار کردیا ۔ کسانوں نے بھی اپنے مطالبہ پر قائم رہتے ہوئے احتجاج جاری رکھنے کا دوٹوک جواب دیا ہے ۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کے بنائے گئے قوانین ملک کے زرعی شعبہ کو ترقی دینے کے لیے ہیں ۔ لیکن حکومت نے زرعی شعبہ کو ترقی دینے سے متعلق جو دعوے کیے ہیں اس کی تفصیلات پیش نہیں کی ۔ حکومت اپنے مقاصد اور اپنی انا کی خاطر کسانوں کے مطالبات کو نظر انداز کررہی ہے ۔ کسانوں نے ان نئے 3 زرعی قوانین میں جن عنوانات کی جانب توجہ دلائی ہے وہ قابل غور ہیں ۔ کیوں کہ حکومت صرف بڑے کارپوریٹ گھرانوں کو زرعی شعبہ میں فوائد حاصل کرنے کا موقع دے رہی ہے ۔ اگر حکومت کے پاس اس قوانین کے موافق کسان ہونے کی کوئی ٹھوس ثبوت اور دلیل ہے تو وہ کسانوں کے ساتھ ہوئی اب تک 7 دور کے مذاکرات کے دوران ہی کسانوں کو مطمئن کراسکتی تھی ۔ حکومت اپنی مرضی اور فیصلہ کو کسانوں پر مسلط کرنا چاہتی ہے جیسا کہ صدر کانگریس سونیا گاندھی نے حکومت کے رویہ پر تنقید کی تھی کہ یہ حکومت گھمنڈی ہے ۔ مرکز میں پہلی مرتبہ ایک مغرور حکومت آئی ہے جو کسی کی نہیں سن رہی ہے ۔ کسانوں نے بھی یہی کہا ہے کہ حکومت کے ساتھ 7 مرتبہ بات چیت کی گئی لیکن حکومت انا کا مسئلہ بنا کر بات چیت کو ناکام بنا رہی ہے ۔ زائد از دیڑھ ماہ سے جاری یہ احتجاج ہر گذرتے دن کے ساتھ شدید ہوتا جارہا ہے ۔ دہلی کی سرحدوں پر ہزاروں کسان سردی اور بارش میں اپنے مستقبل کو بچانے کی فکر کے ساتھ احتجاج کررہے ہیں ۔ حکومت کے ساتھ بات چیت ایک امید کے ساتھ شروع کررہے ہیں ۔ لیکن دن ختم ہوتے ہی مسئلہ جوں کا توں باقی رہ رہا ہے ۔ حکومت کو اپنے ہٹ دھرم رویہ میں نرمی لانے کی ضرورت ہے ۔ کسانوں نے جن مسائل کی جانب حکومت کی توجہ دلائی ہے اس پر غور کرنا چاہئے جب تک دونوں جانب نرم رویہ اختیار نہیں کیا گیا تو حالات کی سنگینی دور نہیں ہوگی ۔ کسانوں کو اندیشہ ہے کہ مرکز نے 3 زرعی قوانین بناکر ان کے بچوں سے ان کا نوالہ چھین لینے کا بندوبست کیا ہے ۔ کسانوں کو ان کی اراضی پر اناج پیدا کرنے کا موقع تو مل جائے گا لیکن یہ اناج جب فروخت کے لیے لایا جائے گا تو اس پر کارپوریٹ گھرانوں کا قبضہ ہوگا ۔ یا پھر کسانوں کی اراضی ہی کارپوریٹ گھرانوں کے پاس گروی رکھنے کے حالات پیدا کردئیے جائیں گے ۔ اس لیے کسانوں کا یہ احتجاج صرف کسانوں کا نہیں ہے ۔ یہ احتجاج سارے ملک کے عوام کی جانب سے ہورہا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ملک کے عوام نے کسانوں کا ساتھ دینے کی ضرورت محسو نہیں کی ہے ۔ کسان غریب اناج پیدا کر کے بھی عوام تک اس اناج کو کم دام میں پہونچانے کی طاقت نہیں رکھے گا ۔ کسانوں کی فصل پر کارپوریٹ گھرانوں کا راج ہوگا تو یہ اناج راست کارپوریٹ اداروں کے زیر قبضہ ہوگا جس کے بعد اناج کی قیمتیں من مانی طور پر وصول کی جائیں گی ۔ جو گیہوں کسان کے پاس سے 20 روپئے میں خریدا جائے گا وہ کھلی مارکٹ میں پاکٹ کی شکل میں فی کیلو 60 روپئے فروخت ہوگا ۔ 40 روپئے کا راست فائدہ کارپوریٹ گھرانوں کا ہوگا ۔ ہر دو لحاظ سے کسان اور عوام پریشان ہوں گے ۔ کسان محنت کر کے سستا اناج پیدا کرے گا تاکہ ہندوستان کے عوام کو سستے داموں اناج حاصل ہوسکے لیکن یہ زرعی قوانین پر عمل آوری کے بعد اناج پر کارپوریٹ کا قبضہ ہوگا ۔ بڑے بیوپاریوں کے پاس اناج کا ذخیرہ ہوگا ۔ مصنوعی قلت پیدا کر کے راتوں رات اناج کی قیمتیں دوگنی سہ گنا کردی جائیں گی ۔ ملک کے غریب عوام مجبوراً زائد قیمتوں سے اناج خریدیں گے اور یہی پالیسی مودی حکومت کے لیے عزیز ہے ۔ عوام کی آنکھوں کے سامنے مودی حکومت ان کی جیب کاٹ رہی ہے تو عوام خاموش ہیں یہ اس ملک کی بدبختی ہے کہ اس پر ایسی حکومت مسلط ہے جو صرف ٹھیکیداروں اور کاپوریٹ اداروں کے فائدہ کی سوچ رہی ہے ۔۔