کسانوں کے خلاف مقدمات

   

کسانوں کے خلاف مقدمات
اکثر کہا جاتا ہے کہ حکومتیں اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے اور ان کی آواز کو کچلنے کیلئے مقدمات درج کرتی ہیں۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کا بیجا استعمال کیا جاتا ہے اور مخالفین پر دباو بنایا جاتا ہے ۔ جس وقت سے مرکز میں نریندر مودی حکومت تشکیل پائی ہے اس وقت سے ہی دیکھا جا رہا ہے کہ سیاسی مخالفین کو مقدمات کے ذریعہ خوفزدہ کرنے کا سلسلہ چل پڑا ہے ۔ سیاسی مخالفین کو انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ ‘ سی بی آئی اور دوسری ایجنسیوں سے خوفزدہ کیا جا رہا ہے ۔ اس کے علاوہ اپوزیشن جماعتوں میں رہتے ہوئے مقدمات کا سامنا کرنے والے قائدین اگر دباو کے آگے جھکتے ہوئے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلیتے ہیں تو پھر ان کے خلاف مقدمات کو برفدان کی نذر کردیا جاتا ہے ۔ ایک طرح سے وہ گنگا جل سے دھل جاتے ہیں اور ان کے پاپ ختم ہوجاتے ہیں۔ یہ تحقیقاتی ایجنسیوں کے انتہائی بیجا استعمال کی واضح مثال ہے ۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ حالیہ عرصہ میں حکومت کی مخالفت کرنے والوں کو بھی مقدمات سے ڈرایا اور دھمکایا جا رہا ہے ۔ سیول رائیٹس کیلئے جدوجہد کرنے والے ہوں یا سماجی حقوق کیلئے آواز بلند کرنے والے ہوں یا پھر حکومت سے سوال کرنے والے ہوں سبھی کو مقدمات سے ڈرایا جا رہا ہے ۔ انہیں ملک دشمن تک قرار دینے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ تاہم جس وقت مرکز کے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں نے احتجاج شروع کیا تھا اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں رہی ہوگی کہ حکومت ملک کے کسانوں کے خلاف بھی این آئی اے کے ذریعہ مقدمات درج کروائے گی ۔ انہیں نوٹسیں جاری کرتے ہوئے پریشان کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ تاہم مودی حکومت نے ایسا کردکھایا ہے ۔ محنت شاقہ کے ذریعہ عوام کو پیٹ بھر روٹی فراہم کرنے کا ذریعہ بننے والے کسانوں کو حکومت اپنے مخالفین یا دشمن سمجھتے ہوئے ان کے خلاف این آئی اے کو استعمال کرنے پر اتر آئی ہے ۔ حکومت کا یہ احساس ہے کہ وہ مقدمات درج کرتے ہوئے اور نوٹسیں جاری کرتے ہوئے کسانوں کو احتجاج ختم کرنے پر مجبور کرسکتی ہے تاہم ایسے آثار فی الحال تو دکھائی نہیں دیتے ۔
جس طرح سے ابتداء سے حکومت نے موقف اختیار کیا ہوا ہے وہ قابل مذمت ہی ہے ۔ کسانوں کو بدنام و رسواء کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ۔ زر خرید گودی میڈیا اور اینکروں نے بھی کسانوں کو بدنام کرنے میں اپنا رول بھی ادا کیا تھا تاہم یہ ساری کوششیں ناکام ہوگئیں۔ خالصتانی ‘ نکسلائیٹ یا ماو نواز سب کچھ قرار دے کر کسان احتجاج کو توڑنے کے ہتھکنڈے اختیار کئے گئے تھے جس کے باوجود یہ احتجاج جاری رہا اور حکومت نے اس کو توڑنے کیلئے اب دوسرا طریقہ اختیار کیا ہے ۔ حکومت کو یہ احساس ہوا ہے کہ مقدمات درج کرتے ہوئے احتجاج کو ختم کروایا جاسکتا ہے تاہم کسانوں کا جہاں تک سوال ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ اس طرح کے مقدمات یا نوٹسوں سے ڈرنے یا گھبرانے والے نہیں ہیں اور وہ اپنے احتجاج کو جاری رکھیں گے ۔ کسانوں نے اعلان کردیا ہے کہ وہ 26 جنوری کو اپنے ٹریکٹر مارچ کو ختم نہیں کرینگے ۔ احتجاج کا ان کا پروگرام برقرار ہے ۔ اس کے علاوہ حکومت کو زرعیق وانین واپس لینے پر مجبور کرنے کیلئے کسان تنظیمیں مئی 2024 تک احتجاج کرنے کو بھی تیار ہیں۔ یہ در اصل کسانوں کے عزم و حوصلے کا اظہار ہے ۔ اس طرح سے کسانوں نے یہ پیام دینے کی کوشش کی ہے کہ ان کو خوفزدہ کرنے کیلئے چاہے جتنے ہتھکنڈے اختیار کرلئے جائیں وہ اپنے احتجاج کو واپس لینے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کا مطالبہ بھی اٹل ہے کہ وہ مرکزی حکومت کی جانب سے بنائے گئے تینوں زرعی قوانین کی واپسی سے کم کسی بھی پیشکش کو قبول کرنے تیار نہیں ہیں ۔
ملک کی جو تحقیقاتی ایجنسیاں ہیں ان کے فرائض مختلف ہیں۔ ان کے ذمہ زیادہ اہم اور حساس نوعیت کے کام ہوتے ہیں۔ انہیں اپنے فرائض منصبی کی تکمیل کرنے کیلئے آزادانہ اختیارات دینے کی ضرورت ہوتی ہے تاہم گار ان ایجنسیوں کو سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے اور مخالفین کو خاموش کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے تو یہ صورتحال افسوسنا ک ہی کہی جاسکتی ہے ۔ دہلی میں احتجاج کرنے والے کسان ملک کے دشمن نہیں ہیں اور نہ ہی وہ وہ کسی بیرونی طاقت کے آلہ کار ہیں۔ وہ اپنے حقوق کیلئے اور اپنے مفادات اور مستقبل کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں اور مرکزی حکومت کو ان کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار کرنے یا انہیں دشمن سمجھنے کی بجائے فراخدلانہ رویہ اختیار کرنے اور مسئلہ کی یکسوئی کرنے کی ضرورت ہے ۔