کسان احتجاج پروزیر اعظم کی خاموشی

   


ملک میں گذشتہ تقریبا ایک مہینے سے کسانوں کا احتجاج چل رہا ہے ۔ کسان مرکزی حکومت کی جانب سے بنائے گئے تین نئے زرعی قوانین کی مخالفت میں یہ احتجاج کر رہے ہیں اور انہوں نے دارالحکومت دہلی کا ایک حد تک گھیراو کر رکھا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ نئے قوانین سے دستبرداری اختیار کرلی جائے جبکہ حکومت نے ابھی تک ایسا اشارہ نہیں دیا ہے کہ وہ کسانوں کے حقیقی مطالبات پر کوئی بات چیت کرے گی ۔ حکومت کی جانب سے حالانکہ اب تک کچھ ادوار کی بات چیت ہوچکی ہے اور کچھ تجاویز ضرور پیش کی گئی ہیں لیکن کسان تینوں قوانین سے دستبرداری سے کم کسی بھی بات کو قبول کرنے تیار نہیں ہیں۔ حکومت نے بھی اپنی خاموشی اور ٹال مٹول کی پالیسی سے کسانوں کے مطالبات کو تسلیم نہ کرنے کا اشارہ دیا ہے ۔ اس صورتحال میں دونوں کے مابین تعطل بنا ہوا ہے اور یہ تعطل قومی مفاد میں نہیں ہے ۔ کسانوں کے مسئلہ پر حکومت کو فراخدلی کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا اور خود وزیر اعظم نریندر مودی کو اس معاملے میں پہل کرنے کی ضرورت تھی لیکن انہوں نے ابھی تک ایسا نہیں کیا ہے ۔ وزیر اعظم نے کسانوں کے مسئلہ پر ابھی تک بھی خاموشی ہی اختیار کر رکھی ہے اور جب کبھی انہوں نے لب کشائی کی ہے اس وقت انہوں نے اپوزیشن کو نشانہ بنایا ہے اور کسانوں کے حقیقی مسائل کا احاطہ نہیں کیا ہے ۔ کسان احتجاج میں اب تک تقریبا چار درجن کسانوں کی موت واقع ہوچکی ہے ۔ اس پر بھی وزیر اعظم نے مون برت رکھا ہوا ہے حالانکہ وہ تقریبا ہر مسئلہ پر اظہار خیال کرتے ہیں اور ٹوئیٹر پر تبصروں کا تسلسل جاری رہتا ہے ۔ کسانوں کے تعلق سے وزیر اعظم کے ٹوئیٹر پر بھی اب تک کسی طرح کا رد عمل نہیں آیا ہے ۔ وزیر اعظم نے ایک طرح سے خود کو کسانوں کے احتجاج اور بالواسطہ طور پر ان کے مسائل سے الگ تھلگ کرلیا ہے جو ان کی غیر ذمہ دارانہ روش قرار دی جاسکتی ہے ۔ جو صورتحال اب پیدا ہوتی جا رہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے کم از کم اب وزیر اعظم کو اپنی خاموشی توڑنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں فراخدلی کے ساتھ کسانوں کے مسائل کو حل کرنے کیلئے آگے آنا چاہئے ۔
وزیر اعظم معمو لی مسائل پر بھی اپنے سوشیل میڈیا پلیٹ فارمس کو سرگرم رکھتے ہیں اور اپنے تبصروں سے رائے کا اظہار کرتے ہیں لیکن جو کسان زمین کا سینہ چیر کر ملک کیلئے راشن پیدا کرتے ہیں ان کیلئے مودی کی خاموشی قابل مذمت ہے ۔ جو وزراء بھی اب تک اس مسئلہ پر اظہار خیال کرتے رہے ہیں انہوں نے بھی حقیقی اور بنیادی مطالبہ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے بلکہ اس احتجاج کو بدنام کرنے کی ہر گوشے سے ہر ممکنہ کوششیں کروائی گئیں۔ گودی میڈیا نے اخلاقی گراوٹ اور چاپلوسی کی انتہاء کو پار کرتے ہوئے کسانوں کے احتجاج کو خالصتانی تحریک قرار دینے کی کوشش کی تو کچھ گوشوں نے اسے اپوزیشن کی ایما پر کیا جانے والا احتجاج قرار دیا ۔ کسی نے یہ بھی کہا کہ یہ احتجاج چین اور پاکستان کی فنڈنگ سے ہو رہا ہے ۔ یہ ساری صورتحال اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ حکومت کسانوں کے ذہنوں میں پائے جانے والے اندیشوں کو دور کرنے کیلئے تیار نہیں ہے بلکہ اس احتجاج کو بدنام و رسواء کرنے کی مہم چھیڑی گئی ہے ۔ اس سے کسانوں کا یہ الزام درست دکھائی دیتا ہے کہ حکومت زرعی قوانین کے ذریعہ کارپوریٹ حاشیہ برداروں کی زرعی شعبہ میں اجارہ داری کو یقینی بنانا چاہتی ہے ۔ کارپوریٹس کیلئے زرعی شعبہ میں راستہ ہموار کرنے کیلئے یہ قوانین تیار کئے گئے ہیں۔ یہ حاشیہ برداروں کو فائدہ پہونچانے کی کوشش کا حصہ ہے لیکن اس کوشش میں ملک کے کسانوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے جبکہ سب سے زیادہ اہمیت اور ترجیح کسانوں کو دی جانی چاہئے ۔
کانگریس کی عبوری صدر سونیا گاندھی نے آج کہا کہ موجودہ حکومت انتہائی ہٹ دھرم حکومت ہے جسے کسانوں کی تکالیف و مسائل کا بھی اندازہ نہیں ہو رہا ہے ۔ سونیا گاندھی کے اس الزام میں بھی حکومت کی بلکہ وزیر اعظم کی خاموشی کو ہی نشانہ بنایا گیا ہے ۔ اپنے من مانی تبصروں اور سوشیل میڈیا پر پرستاروں کی تعداد کا جشن منانے والے وزیر اعظم کو ابھی تک کسانوں کے مسائل پر سوشیل میڈیا میں اظہار خیال کرنے کا موقع نہیں ملا ہے یا انہوں نے اسے ضروری نہیںسمجھا ہے جس سے ان کی ہ دھرمی کا ثبوت ہی ملتا ہے ۔ وزیر اعظم کو چاہئے کہ وہ ہٹ دھرمی والا رویہ ترک کرتے ہوئے فراخدلی کا مظاہرہ کریں۔ کسانوں کو مذاکرات کیلئے مدعو کریں اور ان کو اعتماد میں لینے ہر ممکن کوشش کی جائے۔