کسان پھر سڑک پر !!

   

ملک بھر میں اپنے سابقہ احتجاج سے حکومت کو تین متنازعہ قوانین واپس لینے پر مجبور کرنے اور ملک بھر کے عوام کی تائید و حمایت پانے والے کسان ایک بار پھر سڑک پر اتر آئے ہیں۔ اب کسانحکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اپنے وعدے کے مطابق اقل ترین امدادی قیمت کیلئے قانون بنایا جائے ۔ مرکزی حکومت نے اس کا وعدہ کیا تھا لیکن ابھی تک اس پر عمل آوری نہیں کی گئی ۔ کسان اپنے مطالبات کی تائید میں ایک بار پھر دہلی تک مارچ کر رہے ہیں اور حکومت کی جانب سے ان کی راہ میں کانٹے بچھائے جا رہے ہیں۔ سڑکوں پر خاردار تاربچھا دئے گئے ہیں۔ رکاوٹیںکھڑی کردی گئی ہیں اور کسانوں کے خلاف طاقت کا بھی استعمال کیا گیا ہے ۔ حکومت کسانوں سے ہمدردی کے دعوے کرتی ہے ۔ ان کیلئے کئی طرح کی سہولیات فراہم کرنے کے اعلان کئے جاتے ہیں اس کے باوجود ان کے جائز اور واجبی مطالبات کی تکمیل کیلئے کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ۔ جو تین قوانین ماضی میں بنائے گئے تھے وہ بھی کسانوں کے مفاد میں ہونے کا دعوی کیا گیا تھا لیکن در اصل اس کے ذریعہ کارپوریٹ شعبہ کی زرعی شعبہ میں مداخلت اور اجارہ داری کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ کسانوں نے اس کو بھانپتے ہوئے کئی مہینوں تک لگاتار احتجاج کیا تھا ۔ کئی کسانوں نے اپنی جانوں کی قربانی بھی پیش کی تھی تب کہیں جا کر کسانوں کو ان قوانین سے دستبرداری کی راحت ملی تھی اور وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو کسانوں کا یہ مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے قوانین سے دستبرداری کا اعلان کرنے پر مجبور ہونا پڑا تھا ۔ یہ کامیابی بھی کسانوں نے اپنی بے تکان اور مسلسل جدوجہد کے ذریعہ حاصل کی تھی اور یہ بھی کسی قربانی کے بغیر نہیں تھی ۔ کسانوں نے اپنی جانوں کو گنواتے ہوئے یہ کام کیا تھا اور اس بار اقل ترین امدادی قیمت کیلئے جو احتجاج کیا جا رہا ہے وہ بھی ایسا لگتا ہے کہ طویل مدت کی تیاری کے ساتھ شروع کیا گیا ہے ۔ کسان اپنے مطالبات منوانے کیلئے طویل جدوجہد کیلئے تیار دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو ٹریکٹرس اور گاڑیاںدہلی کی سمت لائی جار ہی ہیں ان میں کئی مہینوں کا راشن اور ڈیزل وغیرہ کا ذخیرہ بھی شامل رکھا گیا ہے ۔
جہاں تک حکومت کا سوال ہے تو وہ ان کسانوں کے خلاف طاقت کا استعمال کرنے لگی ہے ۔ سابق میں کئے گئے احتجاج کے دوران بھی کئی مواقع پر حکومت نے کسانوں کے خلاف طاقت کا استعمال کیا تھا ۔ متحدہ کسان مورچہ کی جانب سے ایک بار پھر اس احتجاج کو کامیاب بنانے کی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے ۔ حکومت ان کسانوں سے بات چیت کی کوشش بھی کر رہی ہے لیکن وہ بات چیت میں بھی کسانوں کے اصل مطالبہ کو تسلیم کرنے تیار نظر نہیںآتی ۔ حکومت نے ابھی تک اقل ترین امدادی قیمت پر قانون سازی کیلئے تیار رہنے کا اعلان نہیں کیا ہے ۔ حکومت کی جانب سے کسانوں کی فلاح و بہبود کے مختلف دعوے کئے جاتے ہیں۔ کئی طرح کے اعلانات کئے جاتے ہیںلیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ دکھاوا ہے اور حقیقی معنوں میں کسان جس قانون کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ بنانے کیلئے حکومت تیار نہیںہے ۔ کسانوں کی صورتحال کا جائزہ لینے والے سوامی ناتھن کمیشن کے ایک رکن نے بھی حکومت سے خواہش کی ہے کہ اقل ترین امدادی قیمت کے مسئلہ پر قانون سازی کی جانی چاہئے ۔ اس کے باوجود حکومت نے ابھی تک اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا ہے ۔ حکومت کسانوں کو تیقن دینے اور انہیں بات چیت کے ذریعہ اعتماد میں لینے کی بجائے ان پر آنسو گیس کے شیلس برسا رہی ہے اور ان پر پانی برسایا جا رہا ہے ۔ یہ مسئلہ کا حل نہیں ہے ۔ کسانوں سے باضابطہ اور منظم انداز طریقے سے فیصلہ کن انداز میں بات چیت کی جانی چاہئے ۔
اقل ترین امدادی قیمت ہندوستان بھر کے کسانوں کا ایک دیرینہ اور اہمیت کا حامل مسئلہ ہے ۔ اس کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے ۔ اس پر کھلے دل کے ساتھ حکومت کو آگے آنے کی ضرورت ہے ۔ کسان اپنے ہی ملک کی حکومت سے مطالبات منوانا چاہتے ہیں اور یہ ان کا حق ہے ۔ وہ مسلسل اصرار کے ناکام ہوجانے کے بعد احتجاج کا راستہ اختیار کر رہے ہیں ۔ ان کے مسئلہ کی اہمیت اور سنجیدگی کو سمجھتے ہوئے اس کا ہمدردانہ طور پر جائزہ لئے جانے کی ضرورت ہے اور اس مسئلہ پر طاقت کا استعمال کرنے یا مزید جانیں تلف کرنے کی بجائے بات چیت کی میز پر بیٹھ کر مسئلہ کا حل دریافت کیا جانا چاہئے ۔ جتنا جلد ممکن ہوسکے قانون سازی کیلئے منصوبہ تیار کرتے ہوئے کسانوں کو مطمئن کیا جانا چاہئے ۔