کس طرح پی ایس اے بورڈ کو ربر اسٹامپ بنادیاگیا‘ حراست کے تمام احکامات میں درستگی لاتا ہے۔

,

   

نئی دہلی۔ مذکورہ پی اے سی بورڈ کا مطلب ہے کہ حکومت کی جانب سے سخت قوانین کے تحت اٹھائے جانے والے اقدامات کی نگرانی کرنا اور یہ کہ کیو ں مذکورہ عدلیہ کو اس کی تقرری مشق کا حصہ بنایاگیاہے۔

ستم ظریفی کی بات تو یہ ہے وہ پی ڈی پی او ربی جے پی حکومت کی تھی جس نے عدلیہ کو اس میں سے علیحدہ کیاتھا۔

پبلک سیفٹی ایکٹ(پی ایس اے) کے تحت 5اگست کے بعد سے جموں او ر کشمیر انتظامیہ نے ساری کشمیر سے 230سے زائد لوگوں کو اس عامرانہ قانونی کے تحت محروس کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں۔

جس میں سے تین احکامات کو پی ایس اے اڈوائزری بورڈ نے مسترد کردیا ہے جو سمجھاجاتا ہے کہ چھ ہفتوں میں ان احکامات کویاتو بحال کریں گے یا مسترد کردیاجائے گا۔

پچھلی اتوار کی رات جموں اور کشمیر کے سابق چیف منسٹر فاورق عبداللہ پر پی ایس اے عائد کردیاگیا اور انہیں گھر میں ماتحت جیل کے طور پر نظر بند کرنے کااعلان کردیاگیا۔

پیر کے روز عبداللہ پر دائر کردہ حبس بیجا کی درخواست پر سنوائی شروع ہونے سے قبل مذکورہ احکامات کی پی ایس اے اڈوائزری بورڈ نے سپریم میں تصدیق بھی کی۔

پی ایس اے بورڈ کا مطلب یہ ہے کہ وہ حکومت کی جانب سے استعمال کئے جانے والے سخت قوانین کی جانچ کرے‘

اس کی جانب سے رسمی الزامات کے بغیر اور کوئی قانونی کے بناء دوسالوں تک قید میں رکھنے کی اجازت دی جاتی ہے‘ اور یہ کہ اسی وجہہ سے عدالیہ کو اس کا حصہ بنایاگیاتھا۔

جموں کشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت کے بعد ہی بورڈ کے چیرپرسن کا تقرر عمل میں لایاجاسکتا ہے

YouTube video

ستم ظریفی یہ کہ پی ڈی پی بی جے پی حکومت جس کی قیادت محبوبہ مفتی کررہی تھی نے اس کو ختم کردیا۔ مئی2018میں حکومت گرانے سے کچھ دن قبل‘ ایک ارڈنینس لایاگیا جس میں عدالیہ کو ہٹاکر بیوروکریٹس کی کمیٹی کو اختیارات دئے گئے۔

ارڈیننس کا اس وقت کے گورنر این این وہرا کے ہاتھوں مئی22سال 2018کو جب نفاذ عمل میں آیااس وقت اسمبلی کی چھٹیاں چل رہی تھیں۔

موجودہ رکنی بورڈ کی قیادت سابق جموں او رکشمیرہائی کورٹ کے جج جانک راج کوتوال کررہے ہیں۔

کوتوال کاتقرر 30جنوری کواسٹیٹ ایڈمنسٹرٹیو کونسل(ایس اے سی) کو گورنر ستیہ پال ملک سے تقررکے متعلق اجازت ملنے کے بعد نامزد کیاگیاتھا۔

مارچ2018سے اس وقت تک یہ عہدہ خالی تھا۔ارڈنینس کے نفاذ سے قبل پی ایس اے کی دفعہ 14(3)میں کہاگیاتھا کہ”مذکورہ چیرمن او ربورڈ کے دیگر ممبران کا تقرر حکومت کے چیف جسٹس آف انڈیا سے بات چیت کے بعد کیاجائے“۔