کس طرف کو چلتی ہے اب ہوا نہیں

,

   

لوک سبھا الیکشن … مودی کمزور پڑگئے
گیارنٹی کا نیا شوشہ …ووٹنگ مشینوں پر بھروسہ

رشیدالدین
’’امید، اعتماد اور گیارنٹی‘‘ وزیراعظم نریندر مودی نے لوک سبھا چناؤ کیلئے یہ نعرہ دیا ہے ۔ گزشتہ دو میعادوں کو امید اور اعتماد کا نام دیا گیا جبکہ جاریہ الیکشن مودی گیارنٹی کے نام پر لڑا جائے گا ۔ انسان جب زیادہ جھوٹ بولنے لگ جائے تو وہ بھولنے کے عارضہ کا شکار ہوجاتا ہے ۔ ماہرین نفسیات کی مانیں تو جھوٹے کا حافظہ کمزور ہوتا ہے۔ ایک جھوٹ کو نبھانے 100 جھوٹ کا سہارا لینے والے شخص کو یاد نہیں رہتا کہ اس نے کب کہاں اور کس سے کیا کہا تھا ۔ نریندر مودی کا حال بھی کچھ اسی طرح کا ہوچکا ہے ۔ تیسری مرتبہ اقتدار کی خواہش میں انہوں نے سابق میں عوام سے کئے گئے وعدوں کو بھلا دیا ہے۔ 2019 کے چناؤ میں وہ 2014 میں کئے گئے وعدوں کو بھول گئے اور اب 2024 الیکشن میں گیارنٹی کے نام پر نئی جملہ بازی کر رہے ہیں۔ عوام کا حافظہ بھلے ہی کمزور کیوں نہ ہو لیکن رائے دہندے جب حساب لینے پر آجائیں تو سود کے ساتھ وصول کریں گے ۔ جس پارٹی اور حکمراں نے عوام کو بے وقوف سمجھا ، اسے ضرور پچھتاوے سے گزرنا پڑا۔ مودی نے دعویٰ کیا ہے کہ 2014 امید ، 2019 اعتماد اور 2024 گیارنٹی کی طرح ہے۔ اس نعرہ کے بعد مودی حکومت سے گزشتہ وعدوں کی تکمیل کے بارے میں سوال نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بقول ان کے 10 سال امید سے اعتماد کا سفر طئے کرنے میں گزر گئے ۔ لہذا کام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پہلے پانچ سال عوام کو امید دلائی گئی اور دوسری میعاد میں حکومت پر اعتماد بحال ہوا اور کام کی ضمانت تو تیسری میعاد میں دی جائے گی ۔ محض تین جملوں کے ذریعہ نریندر مودی نے ہر شخص کے بینک کھاتے میں 15 لاکھ ، کالے دھن کی واپسی ، ہر سال دو کروڑ روزگار ، مہنگائی میں کمی اور کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے جیسے وعدوں سے اپنا دامن جھاڑلیا ہے ۔ مودی کے مطابق تیسری میعاد ملتی ہے تو کام کریں گے ۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ پہلی میعاد کا تھا ۔ 2019 میں سب کا وشواس کا اضافہ کردیا گیا لیکن نئے نعرہ کے بعد سابق کے تمام وعدے محض سیاسی جملہ ثابت ہوگئے۔ مودی کے نئے نعرہ کا تجزیہ کیا جائے تو یہ عوام کیلئے نہیں بلکہ زعفرانی بریگیڈ کے لئے ہے۔ پہلے پانچ سال زعفرانی تنظیموں میں ہندوتوا ایجنڈہ کے بارے میں امید پیدا کی گئی ۔ دوسری میعاد میں مودی پر سنگھ پریوار کا اعتماد بحال ہوا جبکہ تیسری میعاد میں ہندو راشٹر کی تشکیل کی گیارنٹی دی جارہی ہے۔ مودی گیارنٹی کے نام پر عوام کو گمراہ کرنے کی سازش ہے۔ نئے وعدوں کا لالی پاپ دیا جارہا ہے تاکہ اقتدار کی ہیٹ ٹرک ہوجائے ۔ آزاد ہندوستان کی تار یخ میں 2014 سے انتخابی رجحان تبدیل ہوچکے ہیں۔ ترقیاتی ایجنڈہ کی جگہ بی جے پی نے فرقہ وارانہ ایجنڈہ کو اختیار کیا اور ملک کی سیکولر طاقتیں ہندوتوا کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہیں۔ مودی گیارنٹی ضرور ہے اور وہ ترقی ، امن اور خوشحالی نہیں بلکہ نفرت اور فرقہ پرستی ہے۔ گزشتہ 10 برسوں کے وعدوں کے بارے میں سوال کرنے پر سی بی آئی، انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ اور انکم ٹیکس کے ذریعہ ہراساں کیا جاتا ہے ۔ انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی کا موقف ہمیشہ کی طرح جارحانہ نہیں بلکہ دفاعی دکھائی دے رہا ہے ۔ جملہ بازی کی سیاست سے عوام اکتاہٹ محسوس کرنے لگے ہیں۔ ریالیوں اور عام جلسوں میں جوش و خروش کی کمی صاف دکھائی دے رہی ہے ۔ مودی نے کئی مسائل پر یو ٹرن لیتے ہوئے اندرونی خوف کو ظاہر کردیا ہے ۔ دستور ہند میں تبدیلی کے مسئلہ پر مودی نے یو ٹرن لیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ مودی اور بی جے پی تو کیا خود ڈاکٹر امبیڈکر بھی آجائیں تو دستور تبدیل نہیں کرسکتے۔ دستور ہند میں تبدیلی جمہوریت اور سیکولرازم جیسے الفاظ کو حذف کرتے ہوئے ہندو راشٹر قرار دینے کے اعلانات بی جے پی قائدین نے کئے تھے ۔ عوام ابھی اعلانات کو بھولے نہیں ہیں۔ شکست کے خوف سے نریندر مودی نے دستور میں تبدیلی پر یو ٹرن لیا حالانکہ خفیہ ایجنڈہ میں نئے دستور کی تدوین شامل ہے ۔ مسلمانوں کو تعلیمی اور سماجی حقوق سے محروم کرنا بی جے پی کا بنیادی ایجنڈہ ہے۔ اگر دستور ہند اور ڈاکٹر امبیڈکر کا اتنا ہی احترام ہے تو کشمیر کی دفعہ 370 کو برخواست کیوں کیا گیا۔ طلاق ثلاثہ پر پابندی اور سی اے اے کا نفاذ بھی دستور کی خلاف ورزی نہیں تو کیا ہے ۔ حجاب پر پابندی ، حلال غذاؤں کے استعمال سے روکنا حتیٰ کہ مسلم طلبہ کے اسکالرشپ ختم کرنا یہ تمام دستور کی خلاف ورزی ہے ۔ نریندر مودی دستور ہند کا تقابل رامائن ، بائبل اور مقدس قرآن مجید سے کر رہے ہیں لیکن مخالف دستور فیصلے جو گزشتہ 10 برسوں میں کئے گئے ، اس وقت مذہبی مقدس کتابوں کا خیال کیوں نہیں آیا۔ مودی کہہ رہے ہیں کہ ملک میں غذا اور لباس پر کوئی پابندی نہیں رہے گی۔ انتخابی جملہ کے بجائے مودی بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں کے چیف منسٹرس کو حجاب ، حلال اور غذا کے بارے میں پابندیوں کو ختم کرنے کی ہدایت دے کر اپنی سنجیدگی ثابت کریں۔ وزیراعظم کی یہ باتیں عام آدمی کے حلق سے اترنے والی نہیں ہیں۔
لوک سبھا چناؤ کے پہلے مرحلہ کی رائے دہی مکمل ہوگئی جس کے تحت 21 ریاستوں کی 102 لوک سبھا نشستوں کے لئے عوام نے اپنی پسند کی پارٹی اور امیدوار کے حق میں فیصلہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں بند کردیا ہے۔ دیگر انتخابی مراحل کے لئے مہم عروج پر ہے اور بی جے پی کی انتخابی مہم کی کمان نریندر مودی کے ہاتھ میں ہے۔ جیسے جیسے انتخابی مہم شدت اختیار کر رہی ہے سیاسی مبصرین کے مطابق نریندر مودی کے جارحانہ انداز میں کمی دیکھی جارہی ہے۔ نریندر مودی جو عام طور پر اپوزیشن قائدین اور پارٹیوں کو نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ، آج کمزور دکھائی دے رہے ہیں۔ اپوزیشن پر تنقید سے زیادہ وہ رائے دہندوں سے وضاحت کرنے میں مصروف ہیں۔ گزشتہ 10 برسوں میں مودی نے عوام کے لئے کوئی بھی ایسا کارنامہ انجام نہیں دیا جس کی بنیاد پر ووٹ کی امید کی جاسکے۔ 2014 کے بعد مودی اور امیت شاہ کی جوڑی نے انتخابی مہم کی کمان سنبھالی تھی لیکن وقت گزرتے یہ جوڑی ٹوٹ کر صرف نریندر مودی کا ون میان شو دکھائی دے رہا ہے ۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ گجرات سے دہلی تک کے سفر میں ایل کے اڈوانی کے بعد اگر کسی نے نریندر مودی کی مدد کی تو وہ امیت شاہ تھے۔ امیت شاہ نے شمالی ہند کی روایتی قیادت کو ختم کرتے ہوئے نریندر مودی کو ناقابل چیلنج لیڈرکے طور پر پراجکٹ کیا تھا لیکن آج خود امیت شاہ دوسری صف میں دکھائی دے رہے ہیں۔ نریندر مودی کو پارٹی قائدین توکجا اپنی نجی سیکوریٹی کا عہدیدار بھی برابر ٹھہر جائے تو وہ پسند نہیں کرتے ۔ بی جے پی پر مودی کنٹرول سے سنگھ پریوار بالخصوص آر ایس ایس ناراض دکھائی دے رہا ہے ۔ لوک سبھا الیکشن کارکردگی کی بنیاد پر نہیں بلکہ فرقہ وارانہ ایجنڈہ پر منحصر ہوچکا ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں عوام کو حکومت کی ناکامیوں سے واقف کرا رہی ہیں لیکن رام مندر اور دیگر فرقہ وارانہ موضوعات کے ذریعہ عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹائی جارہی ہے۔ ہندوستان کی تاریخ کا یہ ایک اہم الیکشن ہے جو نظریاتی جنگ کے تحت سیکولرازم اور جمہوریت کے تحفظ کے لئے ہے۔ بی جے پی نے 10 برسوں میں دستوری اور جمہوری اداروں کو جس انداز میں کمزور کرنے کی کوشش کی ، عوام اسے پسند نہیں کریں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں مودی کی مقبولیت میں کمی صاف طور پر دیکھی جارہی ہے ۔ عوام ہمیشہ کی جملہ بازی سے عاجز آچکے ہیں اور کھوکھلے نعروں پر بھروسہ کرنے تیار نہیں ہیں۔ شمالی ہند میں اس مرتبہ بی جے پی کی نشستوں میں کمی واقع ہوگی۔ اترپردیش ، بہار ، راجستھان ، مدھیہ پردیش اور نئی دہلی میں بی جے پی کو نشستوں کا نقصان ہوسکتا ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے جنوبی ہند پر توجہ مرکوز کی ہے ۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کو عوامی ناراضگی کا اندازہ ہے ، لہذا ان کا مکمل انحصار الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر دکھائی دے رہا ہے ۔ سپریم کورٹ نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر مکمل بھروسہ کا اظہار کیا اور اپوزیشن کی شکایتوںکو مسترد کردیا ۔ گزشتہ دو عام انتخابات میں مودی کی کامیابی ماہرین کے مطابق الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی دین ہے۔ کیا اس مرتبہ بھی نریندر مودی مشینوں میں الٹ پھیر کے ذریعہ کامیاب ہوپائیں گے یا پھر رائے دہندوں کا فیصلہ ملک کے مستقبل کو طئے کرے گا ، اس کا اندازہ نتائج کے اعلان سے ہوگا۔رائے دہندے اگر ٹھان لیں تو مشین بھی مودی حکومت کو بچا نہیں پائے گی۔ احمد فراز نے کیا خوب کہا ہے ؎
کس طرف کو چلتی ہے اب ہوا نہیں معلوم
ہاتھ اٹھالئے سب نے اور دعا نہیں معلوم