کس کو مہرباں کہیے کون مہرباں اپنا

   

محمد مصطفی علی سروری
میرے شوہر کی موت کے بعد میں نوکری کی تلاش میں تھی۔ اس دوران میری ملاقات ایک ٹراویل ایجنٹ سے ہوئی جس نے مجھے ہیلپر کی نوکری دلانے کے لیے مجھے مسقط، عمان بھجوانے کا وعدہ کیا۔ میں نے اس ایجنٹ کے وعدہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اس کو پچاس ہزار روپئے دیئے تاکہ وہ مجھے عمان بھجوانے کا انتظام کرسکے۔ اس سال رمضان کے مہینے میں ایجنٹ نے مجھے عمان بھیج دیا۔ وہاں کے مقامی ایجنٹس نے مجھے گھریلو ملازمہ کے طور پر نوکر رکھ لیا۔ میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرنا نہیں چاہتی تھی۔ لیکن ان لوگوں نے مجھے زبردستی کام کرنے پر مجبور کیا۔ کچھ ہی دنوں میں میں بیمار پڑ گئی اور میری طبیعت ایک دم خراب ہوگئی۔ میری خراب طبیعت کو دیکھتے ہوئے اس گھر والوں نے جہاں میں کام کرتی تھی مجھے واپس مقامی ایجنٹ کے پاس چھوڑ دیا۔ میں اپنی خراب طبیعت کا ذکر کرتے ہوئے وہاں کے ایجنٹ سے درخواست کی کہ مجھے واپس انڈیا بھجوادو۔ میری بات سن کر ایجنٹ کہنے لگا کہ اگر میں 2 لاکھ روپیوں کا انتظام کردوں گی تو مجھے انڈیا واپس بھیجا جاسکتا ہے۔ لیکن میں تو 50 ہزار دے کر کچھ کمانے باہر گئی تھی اور میں کہاں سے 2لاکھ کا انتظام کرسکتی تھی۔ کچھ دنوں بعد جب مجھے ایجنٹ نے اپنی ماں سے بات کرنے کا موقع دیا تو میں نے ماں کو اپنی کیفیت کے بارے میں بتلایا کہ میری طبیعت بہت خراب ہے۔ میں انڈیا واپس آنا چاہتی ہوں لیکن یہاں پر ایجنٹ مجھ سے دو لاکھ روپئے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ میری پریشانی کے بارے میں سننے کے بعد میری ماں نے وزیر خارجہ جئے شنکر کو ایک خط لکھ کر مدد طلب کی۔ وزیر خارجہ نے عمان میں ہندوستانی سفارت خانے کو میری مدد کرنے کو کہا اور ہندوستانی سفارت خانے کے تعاون سے میں 18؍ جولائی 2019 کو حیدرآباد واپس آگئی ہوں۔
قارئین شہر حیدرآباد کی اس بیوہ خاتون کا نام خبر رساں اداروں نے شاہین بیگم بتلایا ہے بظاہر تو یہ بھی ایک معمول کی سی خبر نظر آرہی ہے۔ لیکن اس خبر میں ایک بیوہ کی جس جدوجہد بھری زندگی کی کہانی بتلائی گئی ہے وہ ہمارے مہذب سماج کے لیے ایک تازیانہ سے کم نہیں ہے۔
قارئین یہ کوئی ایک اکلوتی بیوہ کی کہانی نہیں ہے۔ ذرا سی آنکھ کھولیے گا اور اپنے اطراف و اکناف دیکھنے کی کوشش کیجیے کیونکہ خاندان میں تو ہم غریبوں کو دیکھنا پسند نہیں کرتے کیونکہ خاندان کے بیوہ ہوں یا ضرورت مند وہ تو ہماری نظروں میں ہمیشہ احسان فراموش ہوتے ہیں نا؟
قارئین 21؍ جولائی اتوار کے دن این ڈی ٹی وی ڈاٹ کام نے ANI کے ذریعہ سے حیدرآباد کی شاہین بیگم کی اسٹوری پیش کی جو کمانے کے لیے باہر جاکر پریشان ہوکر واپس آگئیں ۔ اسی دن یعنی21؍ جولائی کو ہی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے اپنی ویب سائٹ پر نامپلی پولیس اسٹیشن (جوکہ تلنگانہ کے ضلع نلگنڈہ میں واقع ہے) کے حدود میں صدام نام کے ایک شخص کے قتل کی خبر بھی پیش کی۔
خبر کی تفصیلات میں لکھا ہے کہ شیخ صدام نام کے شخص کو قتل کر نے کے بعد اس کے دونوں قاتل عرفان اور محمد غوث نے اس کا سر تن سے الگ کردیا اور اسی سر کو لے کر نلگنڈہ پولیس اسٹیشن سے رجوع ہوکر اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کردیا۔

خبر میں یہ بھی بتلایا گیا کہ قاتلین اور مقتول آپس میں رشتہ دار بھی ہیں اور قتل کا سبب کیا ہے وہ بھی خبر میں واضح کردیا گیا۔ٹائمز آف انڈیا کی خبر کے مطابق محمد غوث اور عرفان نام کے نوجوانوں کی ایک رشتہ دار خاتون رضیہ نام کی ایک بیوہ تھی جس کو دو بچے بھی تھے۔ شیخ صدام نے مدد کرنے کے بہانے رضیہ کو ورغلاکر حیدرآباد چلنے کے لیے آمادہ کرلیا اور شہر کے ایک گھر میں اس کو خادمہ کے طور پر رکھا دیا۔ حیدرآباد میں رہتے ہوئے شیخ صدام نے رضیہ نام کی بیوہ کو ہراساں کرنا شروع کیا اور صدام کی ہراسانی سے تنگ آکر رضیہ نے سال 2017میں خود کشی کرکے موت کو گلے لگالیا۔ رضیہ کی موت کے بعداس کے دو بچوں کا کیا ہوا اس کے متعلق اخبار نے لکھا کہ رضیہ کے خود کشی کرلینے کے بعد صدام نے اس کے رشتہ داروں کو یقین دلایا کہ وہ اب رضیہ کے بچوں کی کفالت کرے گا۔ لیکن گذشتہ دو برسوں کے دوران اس نے اپنے وعدے کو پورا نہیں کیا اور اسی وجہ سے ناراض ہوکر شیخ صدام کو عرفان اور غوث نام کے دونوجوانوں نے گلہ کاٹ کر قتل کردیا۔
خبر میں لکھا ہے کہ نلگنڈہ ضلع کے ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ پدمانابھا ریڈی نے قاتلین کے اعتراف جرم کے بعد صدام کی سرکٹی نعش ڈھونڈ نکالی اور کیس درج کرنے کے بعد تحقیقات کا آغاز کردیا۔
پولیس تو خانہ پری کے لیے صحیح مگر کیس درج کرنے کے بعد تحقیقات کا آغاز کردیا۔ کیا امت مسلمہ بھی اس بات کا نوٹ لے گی کہ آج ہماری سماج میں جب کوئی خاتون بیوہ ہوجاتی ہے تو اس کی کفالت کا کوئی انتظام ہونا چاہیے یا نہیں؟
ایک حیدرآبادی خاتون بیوہ ہونے کے بعد اپنی گذر بسر کا سامان خود کرنے کے لیے مجبور ہے۔ چونکہ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہے تو ہیلپر کی نوکری کرنا چاہتی ہے۔ ایجنٹ ہیلپر کی نوکری دینے کے لیے 50 ہزار روپئے لیتا ہے اور خادمہ کی نوکری کرنے کے لیے مجبور کردیتا ہے۔

بیوہ خاتون کی طبیعت خراب ہوجاتی ہے اور وہ بے بس، مجبور ہوکر ماں سے اپنا حال بتلاتی ہے اور بے چاری ماں وزیر خارجہ کو خط لکھ کر مدد کی اپیل کرتی ہے۔ تب کہیں جاکر بیوہ پریشان حال خاتون کو مدد ملتی ہے اور وہ واپس اپنے وطن انڈیا پہنچتی ہے۔ لیکن ذرا غور کیجیے گا کہ حکومت سے بیوہ کی ماں نے مدد مانگی تو حکومت نے اس کو واپس وطن آنے میں مدد کردی۔ اب جب وہ بیوہ خاتون شہر حیدرآباد واپس آگئی ہے، کیا شہر میں اس کے لیے روزگار کا کچھ سامان ہے۔ کیا کوئی تنظیم ہے جو بیوائوں کے لیے مستقل بنیادوں پر مدد کا سامان کرتی ہے۔ جی نہیں میں مسجد کی اس کمیٹی کی بات نہیں کر رہا ہوں جہاں پر سینکڑوں مرتبہ چکر لگانے کے بعد ایک بیوہ کو کمیٹی کے ایک رکن کی سفارش پر 800 روپئے کا وظیفہ ملتا ہے۔ہم خود کو شمع محمدی کے پروانے ہونے کا نعرہ لگاتے ہیں اور نبی کریمﷺ نے بیوائوں کی مدد کرنے، یتیموں کی کفالت کرنے کی جو تعلیمات دی تھی اُس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ بیشتر مدارس کی جانب سے مالی اعانت کے لیے جاری کیے جانے والے اشتہارات کا جائزہ لیجیے۔ ہر اشتہار میں خاص کر لکھا ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں یتیم بچوں کی خاصی تعداد زیر تعلیم ہے اور اقامت خانوں میں قیام پذیر ہے۔ یتیم بچوں کو مدارس کے اقامت خانوں میں شریک کروادیا جاتا ہے لیکن بیوہ کو شیخ صدام جیسے لوگوں کے شر سے بچانے کا کیا انتظام ہے۔
اپنی لڑکیوں کی ایک مرتبہ ہی شادی کرنے کے بعد والدین مقروض اور بھائی لوگ اپنی بہن کی شادی میں ہاتھ بٹانے کے بعد اتنی ہمت جٹا نہیں پاتے کہ بیوہ بہن کی دوسری شادی کرسکیں۔ شادی نہ بھی کریں تو اپنی ہی سگی بہن کی بیوگی میں کفالت، ان کے لیے بجٹ سے باہر کی بات ہے۔ یہ کسی ایک گھر یا ایک خاندان کا مسئلہ نہیں ہے۔اگر امت مسلمہ جسدِ واحد ہے اور اس جسم میں درد مند دل ہے جو ضرورت مندوں، غریبوں اور بے سہارا لوگوں کے لیے دھڑکتا ہے تبھی تو امت مسلمہ زندہ معاشرے میں شمار ہوگی اور خدائے تعالیٰ کی وہ رحمتیں ہم پر اتریں گی جس کا وعدہ کیا گیا تھا اور ہم لوگوں پر وہ آسانیاں آئیں جس کے لیے دعائیں کرتے ہماری زبان نہیں تھکتی۔کیا رمضان کے مہینے کے علاوہ بیوائوں کی کچھ ضروریات نہیں ہوتی ہیں۔ کیا بیوائوں کو ہمارے اداروں کی جانب سے ہزار، پانچ سو کا وظیفہ ان کی ساری ضروریات کو پورا کرنے میں مدد کرتا ہے۔
کتنی بیوائیں ہیں جنہیں مدد کی ضرورت ہے اور جو خود اپنی مدد آپ کرنے کے لیے بھی تیار ہیں لیکن کیا کوئی ٹیم یا ادارہ ایسا ہے جو ان بیوائوں کی تربیت کا سامان کرے۔ انہیں خود روزگار بنانے میں مدد کرے۔ آج کے اس کالم میں تو دو ایسی بیوائوں کا ذکر آیا ہے جنہوں نے اپنی مدد آپ کرنے کی ہی کوشش کی تھی۔ ایک بیوہ کو ایجنٹ نے دھوکہ دیا اور وہ پریشان ہوکر واپس گھر آگئی ہے۔ دوسری بیوہ کو شیخ صدام نے نلگنڈہ سے حیدرآباد بلاکر ہراساں کرنا شروع کیاکہ بیوہ نے حالات سے تنگ آکر خود کشی کرلی اور اب اس کے دو بچوں کی کفالت کا سوال اٹھ کھڑا ہوگیا ہے۔
کیا مسلمان چاہتے ہیں کہ ان کے سماج کی بیوہ خواتین اپنے معاشرے میں دربدر کی ٹھوکریں کھاکر بالآخر حکومت اور بی جے پی سے مدد طلب کریں۔ فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔ کیونکہ سیاسی جماعتیں تو کہتی ہیں کہ مطلقہ مسلم خواتین نے ان سے مدد مانگی تب ہی کہیں جاکر حکومت نے تین طلاق کے خلاف قانون بنایا اور ہم مسلمان حکومت کے اس اقدام کو شریعت میں مداخلت مانتے ہیں۔ اگر ہندوستانی مسلمان چاہتے ہیں کہ حکومت ان کی شریعت میں مداخلت نہ کرے تو انہیں اپنے معاشرے میں بیوہ اور ضرورت مند خواتین کی مدد کا بھی کوئی طریقہ ڈھونڈ نکالنا ہوگا۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مجھے اور امت مسلمہ کے ہر فرد کو بیوائوں کے تئیں ہماری ذمہ داریاں پورا کرنے والا بنا اور ہمارے سماج کی سبھی خواتین کے لیے ہدایت اور آسانیوں کا معاملہ فرمائے ۔ (آمین)
ہندوستانی مسلمان چاہتے ہیں کہ حکمراں ان سے ہمدردی کریں۔ کسی سے مہربانی کی توقع کرنے سے بہتر ہے ہم خود دوسروں کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں۔بقول شاعر
کس کو مہرباں کہیے کون مہرباں اپنا
وقت کی یہ باتیں ہیں ، وقت اب کہاں اپنا
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com