کشمیر میں ایک سال‘ نتائج توقع کے مطابق نہیں

   

جموں و کشمیر کے تعلق سے ٹھیک ایک برس قبل نریندر مودی حکومت نے اپنی دوسری معیاد کے ابتدائی ایام میں ایک فیصلہ کرتے ہوئے اسے ریاست کے درجہ سے محروم کرتے ہوئے دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تبدیل کردیا تھا اور جموں و کشمیر کو خصوصی موقف دینے والے دستور ہند کے دفعہ 370 کو حذف کردیا گیا تھا ۔ یہ فیصلہ اچانک کیا گیا تھا تاہم اس کیلئے بی جے پی اور حکومت کی جانب سے ایک طویل وقت سے منصوبہ بندی کی جا رہی تھی ۔ جموںو کشمیر میں محبوبہ مفتی کے ساتھ اتحادی حکومت بھی بی جے پی نے ایک منصوبے کے تحت بنائی تھی تاکہ پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس متحد ہوکر حکومت نہ بنا پائیں۔ جب مرکزی حکومت کی کشمیر کے تعلق سے منصوبہ بندی مکمل ہوگئی تو محبوبہ مفتی حکومت کی تائید سے دستبرداری اختیار کرلی گئی اور ریاست میںصدر راج نافذ کردیا گیا ۔ کشمیر کے تعلق سے جو فیصلہ کیا گیا اس پر حکومت نے کسی بھی اپوزیشن جماعت بلکہ ریاست کی اصل سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں نہیں لیا تھا اور اپنے طور پر رفیصلہ کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں انتہائی گہما گہمی میںاس کی منظوری کسی مباحث کے بغیر حاصل کرلی گئی تھی ۔ اب جبکہ اس فیصلے کو ایک سال پورا ہوا ہے تو اس کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ جو توقعات اس فیصلے سے خود حکومت نے وابستہ کی تھیں یا جن کا ملک کے عوام سے وعدہ کیا تھا وہ پوری نہیںہوئی ہیں۔ دہشت گردی اور تشدد پر قابو پانے کی حکومت کی جانب سے بات کی گئی تھی لیکن اس مسئلہ میں بھی حکومت کی توقعات کے مطابق نتائج نہیں رہے ہیں۔ جو اعداد و شمار دستیاب ہوئے ہیں ان کے مطابق حالانکہ جموں و کشمیر دونوں ہی جگہ سنگباری کے واقعات میں کمی ضرور آئی ہے لیکن بحیثیت مجموعی تشدد میں کسی طرح کی کمی نہیں آئی ہے اور نہ ہی ریاست کے عوام کیلئے حکومت کے فیصلے سے کوئی خاص مواقع دستیاب ہوئے ہیں۔ عوام کی زندگیوں میں سکون نہیں پیدا کیا جاسکا ہے اور نہ ہی اس فیصلے سے وہاں کے حالات میں کچھ بہتری آئی ہے ۔ جموں و کشمیر کے عوام کیلئے آج بھی وہی مشکلات ہیں جو مرکز کے فیصلے سے قبل تھیں یا اس سے پہلے سے چلی آ رہی تھیں۔

مرکزی حکومت نے جس طرح نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے نفاذ کے فیصلے کئے تھے اور ان کے بھی نتائج توقعات کے مطابق نہیں تھے بلکہ یہ کہا جائے تو بھی غلط نہیںہوگا کہ یہ نتائج توقعات کے برعکس رہے تھے اسی طرح جموں و کشمیر کے تعلق سے بھی مرکزی حکومت کے فیصلے کے نتائج توقعات کے مطابق نہیں رہے ہیں۔ حکومت کے بلند بانگ دعووں کے برخلاف دونوں ہی مرکزی زیر انتظام علاقوں میں نہ عوام میں کسی طرح کی بہتری پیدا ہوئی ہے اور نہ ان کے حالات میں۔ نہ وہاں روزگار کے کسی منصوبے یا پیاکیج کا اب تک اعلان کیا جاسکا ہے اور نہ ہی وہاں سیاحت کو بحال کیا جاسکا ہے ۔ مقامی عوام کو گذشتہ ایک سال کا بیشتر حصہ عملا کرفیو جیسی صورتحال میں گذارنا پڑا ہے ۔ بے تحاشہ پابندیوں اور تحدیدات کی وجہ سے وہاں کسی طرح کی سرگرمیوں کیلئے حالات سازگار ہی نہیںہوسکے ہیں۔ نہ ملک کی دوسری ریاستوں کے لوگ جموں و کشمیر میں کسی طرح کی سرگرمیوں کا آغاز کرسکے ہیں اور نہ ہی ہمارے اپنے اٹوٹ حصے جموںو کشمیر کے عوام کو ملک کی دوسری ریاستوں میں کسی طرح کے مواقع دستیاب ہوئے ہیں۔ الٹا جموںو کشمیر کے عوام کے تعلق سے ملک کی مختلف ریاستوں اور خاص طور پر بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں نفرت کا ماحول پیدا ہوگیا تھا ۔ جموںو کشمیر سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں اور طلبا پر حملوں کے واقعات پیش آئے ہیںاور انہیں بے تحاشہ مارپیٹ اور ایذا رسانی کے واقعات میںاضافہ ہوگیا تھا ۔

بین الاقوامی سطح پر حکومت نے اپنے فیصلے پر یقینی طور پر تائید حاصل کی ہے لیکن سارے فیصلوں اور اقدامات کا جو مقصد ریاست میں حالات کی بہتری تھا یا ہونا چاہئے تھا ویسا ہو نہیں پایا ہے ۔ نہ عوام کو کسی طرح کی راحت مل سکی ہے اور نہ ہی تشدد پر قابو پایا جاسکا ہے ۔ جس وقت ملک میں نوٹ بندی کا اعلان ہوا تھا اس وقت بھی یہی کہا گیا تھا کہ جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی پر اس فیصلے سے قابو پایا جاسکے گا لیکن ایسا ہوا نہیں۔حکومت کو اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ اس نے اب تک جو بھی فیصلے یکطرفہ طور پر اور من مانی انداز میں کسی سے مشاورت اور کسی کو اعتماد میں لئے بغیر کئے ہیں ان میں اکثر فیصلے ناکام ثابت ہوئے ہیں اور اسی ناکامی کو مستقبل میں ہونے والے فیصلوں کے وقت پیش نظر رکھنا چاہئے۔