کشمیر پر کُل جماعتی اجلاس عالمی دباؤ کا نتیجہ تو نہیں ؟

   

محمد ریاض احمد
وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے حال ہی میں اپنے اقتدار کی ساتویں سالگرہ منائی جس کے بارے میں مختلف ردعمل سامنے آئے کسی نے اسے ساتویں سالگرہ کہا تو کسی کے خیال میں مودی حکومت کی ساتویں برسی رہی، لیکن اس تعلق سے وزیراعظم نریندر مودی اور سنگھ پریوار کے قائدین ہی بہتر جانتے ہیں کہ وہ سالگرہ تھی یا برسی۔ 2014ء کی انتخابی مہم میں مودی نے بے شمار وعدے کئے اور زیادہ تر وعدے حقیقت میں ایسے تھے جنہیں عوام کو بے وقوف بنانے والے وعدے کہا جاسکتا تھا۔ ان وعدوں میں ایک وعدہ یہ بھی تھا کہ اقتدار ملنے پر جموں و کشمیر کو آرٹیکل 370 کے تحت حاصل خصوصی موقف برخاست کردیا جائے گا۔ بہرحال مودی حکومت کو اقتدار حاصل ہوا اور اب اس کی دوسری میعاد چل رہی ہے جو شاید مودی جی کی آخری میعاد بھی ہو ۔ بہرحال ہم بات کررہے تھے آرٹیکل 370 سے متعلق مودی کے وعدے کی اور انہوں نے ایسا کر بھی دکھایا۔ کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے، لیکن مودی حکومت نے نہ صرف اس کے خصوصی موقف کو ختم کیا بلکہ ایک طرح سے اس کی شناخت مٹانے کی کوشش کی چنانچہ اسی کے ایک حصہ کے طور پر کشمیر کو دو مرکزی زیرانتظام علاقوں میں تقسیم کیا گیا۔ اس سے کافی پہلے بی جے پی نے محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی حکومت سے رشتہ توڑتے ہوئے ریاست جموں و کشمیر کو ایک دستوری بحران سے دوچار کیا۔ اکثر ملکی و غیرملکی تجزیہ نگار یہی سوال کرتے ہیں کہ آخر بی جے پی اور پی ڈی پی اتحاد کا مقصد کیا تھا۔ اگر جمہوریت کا استحصال مقصد نہ ہوتا تو بی جے پی، پی ڈی پی حکومت کی تائید سے دستبردار نہ ہوتی اور نہ ہی آرٹیکل 370 اور 35A منسوخ کرتی۔ آرٹیکل 370 اور 35A کی منسوخی سے جموں کشمیر کی شناخت اور اس کے تشخص اور وہاں کی سیاست کیلئے خطرہ پیدا ہوگیا۔ مودی حکومت کے اُس کارروائی کے بعد ساری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح کے حالات پیدا ہوئے اور وہاں کیسے مواصلاتی پابندیاں عائد کی گئیں اور پھر ان پابندیوں کے خلاف کشمیری عوام نے کس طرح کا ردعمل ظاہر کیا۔ حد تو یہ رہی کہ حکومت نے نیشنل کانفرنس کے سرپرست ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور ان کے فرزند عمر عبداللہ، پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی کے ساتھ ساتھ حریت اور دیگر کشمیری جماعتوں اور تنظیموں کے رہنماؤں یہاں تک کہ سماجی جہد کاروں کو قید میں ڈال دیا یا پھر انہیں نظربند کردیا۔ سب سے افسوسناک بات یہ رہی کہ حکومت نے اس کی مخالفت کرنے والی کشمیری سیاسی جماعتوں کے قائدین کو ’’گپکار گینگ ‘‘ قرار دیا ۔ انہیں جیلوں میں بھر کر ذلیل و رسواء بھی کیا، لیکن کشمیری سیاسی جماعتوں نے جمہوری انداز میں پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن (PAGD) قائم کیا او ر جس میں جموں و کشمیر کی جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس ، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، عوامی نیشنل کانفرنس، کشمیر پیپلز مومنٹ جیسی کشمیری جماعتیں شامل ہیں جبکہ فاروق عبداللہ اس کے سربراہ ہیں، قائدین نے گپکار کے ذریعہ مودی حکومت پر کشمیری کے حقوق کی بحالی کیلئے دباؤ ڈالنا شروع کیا اور ان پر یہ الزام عائد کیا کہ مودی کی زیرقیادت بی جے پی حکومت نے جان بوجھ کر کشمیر کو حاصل نہ صرف خصوصی موقف چھین لیا بلکہ اسے دو مرکزی زیرانتظام علاقوں میں تقسیم کردیا تاکہ کشمیر کی حقیقی شناخت مٹا دی جائے۔ لیکن اب حکومت نے ان ہی قائدین کو بات چیت کیلئے مدعو کیا جسے اس نے 22 ماہ قبل ذلیل و خوار کیا تھا اور ان پر قوم دشمن عناصر ہونے کا لیبل چسپاں کیا تھا۔ 24 جون کو وزیراعظم نریندر مودی نے ’’گپکار گینگ‘‘ کو مسئلہ کشمیر پر بات چیت کیلئے مدعو کیا۔ اس اجلاس میں واضح طور پر تیقن دیا کہ حالات بہتر ہونے پر کشمیر کو ماضی میں حاصل ریاست کا درجہ بحال کردیا جائے گا اور وہاں انتخابات کروائے جائیں گے، تاہم وزیراعظم نریندر مودی اور امیت شاہ نے اس ضمن میں کوئی ٹائم فریم کا نہیں دیا ۔بعد میں جو اطلاعات منظر عام پر آئیں، اس میں بتایا گیا کہ امیت شاہ نے ان قائدین سے خطاب میں واضح کیا کہ مودی حکومت کی ترجیح یہ ہے کہ جموں و کشمیر میں حد بندی کا جو عمل جاری ہے، اسے جلد سے جلد مکمل کیا جائے اور وہاں جمہوری عمل کا جلد ہی اہتمام کیا جائے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم ضرور جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ بحال کریں گے لیکن یہ فیصلہ مناسب وقت پر کیا جائے گا۔ دوسری جانب وزیراعظم نریندر مودی کے خیال میں وہ چاہتے تھے کہ اس طرح کا کُل جماعتی اجلاس پہلے ہی منعقد کیا جائے لیکن ایسا نہیں کیا جاسکا۔ وزیراعظم نے یہ بھی بتایا کہ حالات بہتر ہونے پر ریاست کے درجہ کی بحالی ہوسکتی ہے، تاہم اجلاس میں شریک کشمیری قائدین کے حوالے سے جو باتیں سامنے آئی ہیں اس میں یہی کہا گیا کہ راجیہ سبھا میں جس کانگریسی قائد اپوزیشن غلام نبی آزاد کیلئے وزیراعظم نے الوداعی خطاب کے دوران جذبات سے مغلوب ہوکر آنسو بہائے تھے، ان ہی غلام نبی آزاد نے حکومت کی تائید میں بات کی اور مودی حکومت کی ستائش کی حالانکہ وہ کانگریس کے ایک نمائندہ کی حیثیت سے اجلاس میں شریک تھے اور انہیں یہ بھی اچھی طرح معلوم تھا کہ حکومت نے ریاست کے تین سابق چیف منسٹروں اور موافق حکومت قائدین ڈاکٹر فاروق عبداللہ ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ کشمیری قائدین کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ حکومت کے پاس کوئی ایجنڈہ نہیں تھا لیکن ان لوگوں نے اپنا موقف واضح طور پر حکومت کے سامنے رکھا۔ ان لوگوں نے اس بات پر زور دیا کہ کشمیر کو حاصل ریاست کا درجہ بحال کیا جائے، وہاں انتخابات کروائے جائیں اور کشمیریوں کے حقوق پامال کرنے سے گریز کیا جائے۔ ایک بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ جن کشمیری جماعتوں کے قائدین نے اجلاس میں شرکت کی، ان ہی جماعتوں کے کئی قائدین نے اس کی مخالفت کی تھی مثال کے طور پر نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے کئی ایسے قائدین ہیں جنہوں نے مودی حکومت کی جانب سے اہتمام کردہ اجلاس میں شرکت کی مخالفت کی تھی۔ بہرحال سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تقریباً 22 ماہ تک کشمیری عوام اور کشمیری سیاسی قائدین کو ذلیل و رسواء کرتے رہنے کے بعد آخر کیا وجہ ہے کہ مودی حکومت خود آگے بڑھ کر کشمیری سیاسی رہنماؤں سے بات چیت کا اہتمام کرتی ہے۔ کیا اس کا تعلق بڑھتے عالمی دباؤ سے تو نہیں؟ کیا مودی حکومت کے موقف میں اچانک تبدیلی افغانستان جیسے گڑبڑ زدہ ملک سے امریکی و نیٹو فورسیس کے تخلیہ سے تعلق تو نہیں رکھتی ؟ کیا یہ مودی حکومت کے اس فیصلے اور افغانستان میں اقتدار کی جانب طالبان کے بڑھتے قدم کے درمیان کوئی کڑی تو نہیں؟ جہاں تک عالمی دباؤ کا سوال ہے، متحدہ عرب امارات نے حالیہ عرصہ کے دوران ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مصالحت کیلئے کوششوں کا آغاز کیا اور یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ یو اے ای نے کہا جاتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے سکیورٹی اور انٹلیجنس عہدیداروں کے درمیان بیاک ڈور چینل کی سفارت کاری شروع کی اور دوسری طرف مودی حکومت پر امریکی انتظامیہ، امریکی کانگریس اور حقوق انسانی کی امریکی تنظیموں کے ساتھ ساتھ حقوق انسانی اور مذہبی آزادی کے عالمی اداروں نے بھی زبردست لعن طعن کی ہے اور یہاں تک کہا گیا کہ ہندوستان میں مکمل جمہوریت نہیں بلکہ جزوی جمہوریت ہے اور یہاں اقلیتوں کے انسانی حقوق پامال کئے جارہے ہیں۔ ان کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا جارہا ہے اور گاؤکشی و لو جہاد اور تبدیلی مذہب کے نام پر ان کی جانیں لی جارہی ہیں (یہ اور بات ہے کہ بحیثیت ایک محب وطن ہندوستانی ہم ہرگز نہیں چاہتے کہ کوئی ہمارے ملک پر تنقید کرے۔ ویسے بھی ہندوستان میں فرقہ پرستی کا زہر پھیلانے والوں کی تعداد کم اور انسانیت نوازوں کی تعداد زیادہ ہے)۔ ہو سکتا ہے کہ عالمی برادری کو یہ پیغام دینے کیلئے کہ ہم نے تو بات چیت کا دروازہ کھلا رکھا ہے ، اس بات چیت کا اہتمام کیا گیا تھا، یہ بھی پتہ چلا ہے کہ اجلاس میں کشمیری قائدین نے حکومت سے ریاست کا درجہ دوبارہ بحال کرنے، جلد سے جلد انتخابات کروانے، ملازمتوں اور معاشی صورتحال کو بہتر بنانے ، کشمیری پنڈتوں کی واپسی کو ہر ممکن کوشش کرنے کے علاوہ جیلوں میں بند سیاسی قائدین کی رہائی کے مطالبات کئے، تاہم بقول غلام نبی آزاد اجلاس میں کشمیری قائدین نے آرٹیکل 370 کی جس انداز میں برخاستگی عمل میں لائی، اس پر اپنی برہمی سے واقف کروایا اور ’’جو ہوا سو ہوا‘‘ جیسے جملے سے اتفاق بھی کیا اور یہاں تک کہا کہ ہم آرٹیکل 370 پر مباحث نہیں کریں گے کیونکہ یہ مسئلہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے۔ سماجی جہد کاروں کے مطابق اگر آرٹیکل 370 کو یہ کہہ کر نظرانداز کیا جاسکتا کہ یہ مسئلہ عدالت میں زیرسماعت ہے تو پھر دوسرے مسائل بھی اسی نوعیت کے ہیں۔ ایک بات تمام قائدین کے بارے میں یہ سامنے آئی کہ اُن لوگوں نے حکومت کو یقین دلایا کہ پاکستان سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ ہاں! ان لوگوں نے پاکستان سے بات چیت کرنے کا حکومت کو مشورہ دیا۔ اس طرح یہ میٹنگ اپنے اختتام کو پہنچی۔ یہاں ایک بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ گپکار گینگ کو جہاں عوام دہلی کا ایجنٹ کہتے ہیں، وہیں دہلی بھی انہیں جس طرح چاہے اپنے مقصد کیلئے استعمال کرلیتی ہے۔ اجلاس طلب کیا جانا کوئی بڑی بات نہیں ، بلکہ واضح تیقنات کے بجائے ٹھوس اقدامات کیا جانا ضروری ہے تب ہی کشمیر میں امن اور خوشحالی کا دور دورہ ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ کشمیر پر دباؤ سے نہیں بلکہ دل سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
mriyaz2002@yahoo.com