کورونا، بازار اور گودی میڈیا

   

امجد خان
کورونا وائرس کی تباہی و بربادی کو دیکھتے ہوئے سارے ملک میں 24 مارچ سے لاک ڈاون نافذ کیا گیا اور پھر مرحلہ وار انداز میں اس میں توسیع کی جاتی رہی یہاں تک کہ اب ہمارے ملک میں لاک ڈاون 4 بھی شروع ہوچکا ہے۔ جس وقت پہلا لاک ڈاون نافذ کیا گیا اس وقت ملک میں صرف 635 افراد کورونا وائرس سے متاثر تھے لیکن اب یہ تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔ اگر مودی حکومت پہلے ہی احتیاط برتتی اور ایئر پورٹس پر بیرونی ممالک سے آنے والے مسافرین کی اسکریننگ پر توجہ دی جاتی ہے اور ملک میں کورونا ٹسٹ بڑے پیمانے پر کئے جاتے تو اس قدر تباہی نہیں ہوتی۔ آج ملک میں ہر روز 30 ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا ہے صرف 50 دن میں 18 لاکھ کروڑ روپے کا نقصان ہمارا سرکاری خزانہ برداشت کرچکا ہے۔ 3000 سے زائد زندگیاں ختم ہوچکی ہیں اور نقل مکانی کرنے والے مزدوروں کی دردناک کہانیاں ماحول میں گردش کرنے لگی ہیں۔ کورونا وائرس بحران کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ تھا کہ فرقہ پرستوں اور انہیں درندگی کا آکسیجن فراہم کرنے والے گودی میڈیا نے اس وائرس کو بھی مسلمانوں سے جوڑنے کی کوشش کی۔ بہرحال اس معاملہ میں ہندوستان ساری دنیا میں بدنام ہوگیا اور خود ہندوستان کے دوست عرب ممالک نے بھی برہمی کا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ بعض عرب صحافیوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو منہ کھولنے اور کچھ بولنے کا مشورہ دیا۔ جہاں تک لاک ڈاون 4 کے دوران نرمی دیئے جانے کا سوال ہے یہ سب کچھ مرکزی و ریاستی حکومتوں نے مزید معاشی نقصانات سے بچنے کے لئے کیا ہے۔ ملک میں 4 کروڑ سے زائد دکانات اور تجارتی ادارے کھولے جاچکے ہیں۔ چونکہ کل یا پرسوں بعد عید الفطر ہے ایسے میں فرقہ پرستوں کو یہ امید ہے کہ مسلمانوں کی کثیر تعداد بازاروں میں اُمڈھ پڑے گی اور سماجی دوری کے اصول کی دھجیاں اُڑادے گی۔ اس دوران کچھ لوگ کورونا وائرس سے متاثر ہوں گے پھر فرقہ پرستوں کو مسلمانوں کے خلاف یہ کہہ کر زہریلی مہم چلانے میں مدد ملے گی کہ ملک میں مسلمانوں کے باعث ہی کورونا وائرس پھیل رہا ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کے لئے عقل مندی اسی میں ہے کہ وہ رمضان المبارک کے ان آخری ایام میں گھروں میں ہی رہیں، بازاروں کا رخ نہ کریں اور دشمنوں کو کسی قسم کا موقع نہ دیں۔ فرقہ پرست تو مسلمانوں کے خلاف موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ مسلمانوں خاص طور پر ان کی خواتین کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ مساجد بہترین مقام اور بازار بدترین مقام ہیں۔ ایسے میں ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج ساری مساجد بند ہیں جو مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑا غم ہے۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ آخر اللہ رب العزت نے اپنے گھر کے دروازے ان کے لئے کیوں بند کردیئے۔ اگر ہم بند مساجد کو چھوڑ کر کھلے بازاروں کا رخ کرتے ہیں تو اس سے کچھ فائدہ ہونے والا نہیں بلکہ رمضان کی جو برکتیں ہم اپنے گھروں میں بیٹھ کر حاصل کرسکتے ہیں بازاروں میں اس سے محروم ہوسکتے ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ جسے چاہے صراط المستقیم پر چلاتا ہے اور جسے چاہے گمراہ کرتا ہے۔ ہم یہی دعا کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو گمراہی سے بچائیں۔

گودی میڈیا غیر ضروری مسائل پر اشتعال انگیز مباحثہ کرواتا ہے اور لوگوں کے ذہنوں کو فرقہ پرستی کے زہر سے آلودہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتا۔ اس میڈیا کے اینکرس بڑی بے شرمی، بے حیائی، بے حسی اور دروغ گوئی کے ذریعہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کے بہانے تلاش کرتا ہے۔ یہاں تک کہ غلط اور جھوٹی خبریں نشر کرنے سے بھی نہیں شرماتا۔ ہاں اسے اس وقت شرم آتی ہے جب مسلمان کسی ہندو بزرگ، ضعیف خاتون اور نوجوان کی آخری رسومات انجام دیتے ہیں۔ اس بارے میں وہ کوئی خبر نشر نہیں کرتا اور نہ ہی اس قسم کے واقعات پر تبصرے کرتا ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران ساری دنیا نے دیکھا کہ ملک کی مختلف ریاستوں میں کورونا بحران کے درمیان کئی مرنے والے ہندووں کی آخری رسومات مسلم نوجوانوں نے انجام دیں لیکن گودی میڈیا نے ہندوستان کی نمائندگی کرنے سیکولرازم، اتحاد و اتفاق کا پیام دینے والے ان واقعات کو نظرانداز کردیا۔ حد تو یہ ہے کہ ہندووں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے دو سادھووں کی موت پر زبانی ہمدردی اظہار کرنے والے اس میڈیا نے پہلے تو پال گھر واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی اور جان بوجھ کر یہ تاثر پیدا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی کہ سادھووں کا قتل مسلمانوں کے ہاتھوں ہوا ہے لیکن مہاراشٹرا کی شیوسینا، این سی پی اور کانگریس مخلوط حکومت نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے سادھووں اور ان کے ڈرائیوروں کے قاتلوں کو گرفتار کرلیا جو تمام کے تمام غیر مسلم تھے۔ حال ہی میں مدھیہ پردیش میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جہاں پر اعلیٰ مسلم عہدہ دار سلیم خان نے کورونا وائرس سے متاثر ہوکر ہلاک ہونے والے ایک 30 سالہ نوجوان راہول کی آخری رسومات انجام دیں۔ راہول کی آخری رسومات انجام دینے اس کا کوئی رشتہ دار اور کوئی ہندو تنظیم آگے نہیں آئی تب اُس مسلم عہدہ دار نے آگے بڑھ کر راہول کی آخری رسومات انجام دیں۔ بہرحال مغربی بنگال کے ایک علاقہ میں مسلمانوں پر تشدد کیا گیا، ان کی املاک کو آگ لگائی گئی گودی میڈیا نے اس پر بھی کوئی توجہ نہیں دی۔ ہاں اگر کسی معمولی واقعہ میں بھی کوئی مسلمان ملوث ہوتو گودی میڈیا کے اینکرس چیخ چیخ کر سارے ماحول کو سر پر اٹھالیتے۔ بہرحال آج ہندوستان کو ایک غیر جانبدار، انصاف پسند اور انسانیت نواز میڈیا کی ضرورت ہے جو لوگوں کو توڑے نہیں بلکہ جوڑنے کے لئے کام کرے۔ تب ہی وہ صحافتی اقدار اور جمہوریت و سیکولر کی پاسداری کو یقینی بناسکتا ہے۔