کورونا:زائداز67لاکھ بچے لاغر پن کا ممکنہ شکار؟ :یونیسیف

,

   

نیو یارک: بچوں کی بین الاقوامی تنظیم یونیسیف نے متنبہ کیا کہ کووڈ۔9 کی عالمی وباء کی وجہ سے سماجی اور معاشی اثر ات کے نتیجہ میں رواں سال میں پانچ سال سے کم عمر مزید 67لاکھ بچے لاغر پن یا عمر کے لحاظ سے دبلے پن کا شکار بن سکتے ہیں۔یہ نتیجہ مشہور عالمی طبی جریدہ دی لانسیٹ Lancetمیں شائع ہونے والے ایک تجزیے میں اخذ کیا گیا ہے ۔تجزیہ کے مطابق ان بچوں میں سے 80فیصد بچوں کا تعلق براعظم افریقہ کے پسماندہ صحرائی علاقہ اور جنوبی ایشیاء سے ہوگا۔ مزید برآں یہ کہ ان میں سے نصف سے زیادہ تعداد میں ایسے بچے اکیلے جنوبی ایشیاء میں ہوں گے ۔یونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہین ریٹا فور نے کہا کہ سات مہینے قبل سب سے پہلے جب کوویڈ 19 کے معاملے منظر پر آئے تھے تو یہ حقیقت واضح ہوچکی تھی کہ اس وبائی مرض کے بجا ئے اس سے پیدا ہونے والے اثرات بچوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔ انسانی نشوونما کے لئے لازمی غذائیت بخش اشیاء کو فراہم کرنے والے اداروں کی خدمات اس سے متاثر ہوئیں۔ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے ۔ اس کے نتیجے میں بچوں کے کھانے کی چیزوں کا معیار بھی گرا اور ان میں تغذیہ کی کمی کا تناسب بڑھ گیا۔ واضح رہیکہ لاغر پن یاناقص تغذیہ کی ایک جان لیوا شکل ہے جو بچوں کو بہت پتلا اور کمزور بنا دیتی ہے اور اس کے نتیجہ میں ایسے بچوں میں کمزور دماغی حالت، کمزور تعلیمی رجحان، کمزور مدافعت اور متعدی بیماریوں کا شکار ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور بعض بیماریوں کی وجہ سے وہ لقمہ اجل بھی بن جاتے ہیں۔ یونیسیف کے بموجب کوویڈ 19 کی وبا پھیلنے سے پہلے ہی سن2019 میں 47 ملین بچے لاغر پن کا شکار تھے ۔ اگر اس کے تدارک کے لیئے فوری طور عملی اقدامات نہیں کئے گئے تو رواں سال کے آخر تک لاغرپن کا شکار بچوں کی عالمی تعداد تقریبا 54 ملین تک پہنچ سکتی ہے ۔

اس سے دنیا میں عالمی سطح پر لاغر پن کے شکار بچوں کی تعداد اس سطح پر پہنچ جائے گی جس کی مثال موجودہ ہزارے میں نہیں ملتی۔لانسیٹ کی رپورٹ پر رائے زنی کرتے ہوئے یونیسیف، فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن، ورلڈ فوڈ پروگرام اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے سربراہوں نے متنبہ کیا ہے کہ کووڈ۔19 وبا کے نتیجہ میں پوری دنیا میں خاص طور پر کم اور اوسط آمدنی والے ملکوں میں قوت بخش غذاؤں کا استعمال کم ہوا ہے ۔ اس کے سب سے زیادہ خراب اثرات بچوں پر مرتب ہو رہے ہیں۔ غذائی اشیاء کی فراہمی کی خدمات متاثر ہونے ، کھانوں کا معیار گرنے ، اور وبائی مرض کے خوف سے پیدا صدموں کے نتیجہ میں بچے اور خواتین زیادہ تر ناقص تغذیہ کا شکار ہو رہی ہیں۔ انسانی بہبود کے لئے سرگرم اداروں و تنظیموں کو اس سال کے آخر تک سب زیادہ معاشی طور پر کمزور ملکوں میں زچہ بچہ اور بچوں بہتر نشوونما کے ئے فوری طور پر 2.4 ارب امریکی ڈالر رقم کی ضرورت ہے ۔ اقوام متحدہ کی چار ایجنسیوں کے سربراہا ن نے دنیا کی حکومتوں، عوام، صاحب خیر حضرات، اور نجی شعبے سے اپیل کی ہے کہ وہ بچوں کے غذائیت سے متعلق حق کے تحفظ کے لئے آگے آئیں۔یونیسیف انڈیا کی نمائندہ ڈاکٹر یاسمین علی حق نے کہا کہ وبائی مرض کے ثانوی اثرات سے لاکھوں بچے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ روز گار کے چلے جانے کے ساتھ ساتھ علاج و معالجہ اور غذائی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے سبب معاشی طور کمزور خاندان اور بچے مفلسی کا شکار ہوسکتے ہیں اور غریب خاندانوں کو اپنے بچوں کو کام پر لگانے کے لیئے مجبور ہونا پڑسکتا ہے جس سے ان بچوں کا مستقبل تاریک ہوسکتا ہے ۔ ایسے کمزور خاندانوں اور افراد میں غذائیت کو یقینی بنانے کے لئے قومی اور ریاستی حکومتوں، ترقیاتی شراکت داروں، نجی شعبے کو فوری طور پر حرکت میں آنا چاہیئے تاکہ یہ خاندان وبا کے مضر اثرات کا مقابلہ کرسکیں اور اس میں نہ صرف تغذیہ بخش اشیاء پہنچانے کی خدمات اور ان تک رسائی پر بھی توجہ دینا چاہیئے ۔ اسی طرح سماجی تحفظ کے اقدامات پر بھی توجہ مرکوز کرنا چاہیے جو بچے کے حقوق کو پورا کرنے کے لئے نہایت اہم ہیں۔