کورونا وائرس ہے کیا اور اس سے کیسے بچیں؟

   

کورونا وائرس سے چین سمیت مختلف ممالک میں ہونے والی سیکڑوں ہلاکتوں کے بعد دُنیا بھر میں احتیاطی تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں۔ یہ وائرس برصغیر ہند و پاک کے علاوہ اس کے ہمسائیہ ممالک ایران اور افغانستان میں بڑی تیزی سے پھیل چکا ہے۔حکومتوںنے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ خوفزدہ ہونے کی بجائے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔
کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں؟ کورونا وائرس کی علامات عام فلو کی طرح ہی ہیں۔ ماہرین صحت کے مطابق بخار، کھانسی، زکام، سردرد، سانس لینے میں دُشواری کورونا وائرس کی ابتدائی علامات ہو سکتی ہیں۔لیکن ضروری نہیں کہ ایسی تمام علامات رکھنے والا مریض کورونا وائرس کا ہی شکار ہو۔ البتہ متاثرہ ممالک سے آنے والے مسافروں یا مشتبہ مریضوں سے میل جول رکھنے والے افراد میں اس وائرس کی منتقلی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔اگر بیماری شدت اختیار کر جائے تو مریض کو نمونیہ ہو سکتا ہے۔ اور اگر نمونیہ بگڑ جائے تو مریض کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ماہرین صحت کے مطابق انفیکشن سے لے کر علامات ظاہر ہونے تک 14 روز لگ سکتے ہیں۔ لہذا ایسے مریضوں میں وائرس کی تصدیق کے لیے اُنہیں الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔
یہ وائرس کیسے پھیلتا ہے؟ صحتمند افراد جب کورونا وائرس کے مریض سے ہاتھ ملاتے ہیں یا گلے ملتے ہیں تو یہ وائرس ہاتھ اور سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وائرس انتہائی سرعت کے ساتھ ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہو جاتا ہے۔لہذا اس وائرس میں مبتلا مریضوں کا علاج کرنے والے طبی عملے کو بھی انتہائی سخت حفاظی اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔کورونا وائرس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟ ماہرین صحت کے مطابق باقاعدگی سے ہاتھ دھونا، ماسک کا استعمال، کھانسی اور چھینک کے وقت ٹشو پیپر یا رومال کا استعمال یا عدم دستیابی کی صورت میں کہنی سے ناک کو ڈھانپ لینا اس وائرس سے انسان کو محفوظ بناتا ہے۔کورونا وائرس کے مشتبہ مریض سے بغیر حفاظتی اقدامات یعنی دستانے یا ماسک پہنے بغیر ملنے سے گریز کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ماہرین کے مطابق گوشت اور انڈوں کو اچھی طرح پکانا بھی حفاظی تدابیر میں شامل ہے۔ نزلہ اور زکام کی صورت میں پرہجوم مقامات پر جانے سے اجتناب اور ڈاکٹر سے تفصیلی طبی معائنہ کرانا بھی اس مرض سے بچاؤ کے لئے فائدہ مند ہے۔
کیا کورونا وائرس قابل علاج ہے؟ کورونا وائرس سے بچاؤکیلئے عالمی سطح پر ویکسین کی تیاری پر کام جاری ہے۔ کیوں کہ یہ نیا وائرس ہے لہذا فی الحال اس کا علاج روایتی طریقوں سے کیا جارہا ہے۔ادویات کے ذریعے مریض کے مدافعتی نظام کو فعال رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاکہ مدافعتی نظام ہی وائرس کا مقابلہ کرلے اور مریض صحت یاب ہوجائے۔ البتہ ماہرین صحت توقع ظاہر کر رہے ہیں کہ اس سال کے اختتام تک وائرس کی اس نئی قسم کے سدباب کیلئے ویکسین دریافت ہوجائیگی۔ ماہرین کے مطابق جن افراد کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے۔ اُنہیں یہ وائرس زیادہ متاثر کر سکتا ہے۔ البتہ اس وائرس سے اموات کی شرح بہت کم ہے۔ البتہ یہ بہت تیزی سے پھیلتا ہے۔