کورونا پر حکومتوں کے اقدامات

   

جو ساتھ وقت کے چلا وہ مرد ہے
جو رہ گیا وہ راستے کی گرد ہے
کورونا پر حکومتوں کے اقدامات
جس وقت سے دنیا بھر میں کورونا وائرس نے قیامت ڈھانی شروع کی تھی اس وقت سے ہی اس تعلق سے مختلف اندیشے اور شبہات کو تقویت حاصل ہوتی جا رہی تھی ۔ ابتدائی مراحل میں چونکہ یہ وائرس ہندوستان میںداخل نہیں ہوا تھا اس لئے اس پر زیادہ توجہ بھی نہیں دی گئی تاہم جو خبریں میڈیا اور سوشیل میڈیا میں عام ہوتی جا رہی تھیں ان کی وجہ سے عوام میں دھیرے دھیرے اس وائرس کے تعلق سے پہلے تو تجسس پیدا ہونا شروع ہوا تھا اور چین ‘ اٹلی اور اسپین کے علاوہ ایران میں ہونے والی بے تحاشہ اموات اور لاکھوں افراد کے متاثر ہونے کی خبروں نے عوام میں خوف بھی پیدا کردیا تھا ۔ اب یہ خوف مزید شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس وائرس کی وجہ سے عوام کو محفوظ رکھنے حکومتوں کی جانب سے اقدامات کا آغاز ہوچکا ہے ۔ حکومتیں مختلف طرح کی احتیاط کو ترجیح دے رہی ہیں اور عوام میں بھی اس کی تشہیر کی جا رہی ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ حکومتوں کے اقدامات کو سمجھنے اور احتیاط کو روا رکھنے کی بجائے عوام میں اس کی وجہ سے مزید خوف پیدا ہوتا جا رہا ہے ۔ ملک بھر کی مختلف ریاستوں نے جس طرح کے فوری اور تیز رفتار اقدامات کئے ہیں‘ اسکولوں اور کالجس کو بند کردیا گیا ہے ‘ مالس اورسوپر مارکٹس کو بھی کچھ جگہ بند کردیا گیا ہے ۔ سوئمنگ پولس اور جم میں نوجوانوں کا اجتماع روک دیا گیا ہے ۔ سنیما ہالس اور تھیٹرس کو قفل لگادیا گیا ہے اور اسی طرح کے جو اقدامات کئے گئے ہیں ان کی اہمیت کو سمجھنے اور اسی طرح کے احتیاطی اقدامات کو اپنے آس پاس بھی اختیار کرنے کی بجائے عوام میں خوف نے سر ابھارا ہے ۔ یہ خوف دھیرے دھیرے شدت بھی اختیار کرتا جا رہا ہے اور یہ صورتحال کسی بھی صورت میں بہتر نہیں کہی جاسکتی ۔ حالانکہ یہ وائرس بہت زیادہ خطرناک کہا جا رہا ہے لیکن اس کا خوف ایسا لگتا ہے کہ اسے اور بھی خطرناک بناتا جا رہا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خوف کی بجائے احتیاط کو ترجیح دی جائے ۔ نازک مراحل میں خوف کی بجائے حواس کو قابو میں رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ حواس کو قابو میں رکھا جائے تو پھر کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آتی ۔
مرکزی حکومت نے آج سے اپنے ملازمین کی نصف تعداد کو گھروں سے کام کرنے کی ہدایت دیدی ہے ۔ دوسرے جو ملازمین ہیں ان کے اوقات کار کو بھی کم کردیا گیا ہے ۔ اسی طرح مختلف ریاستوں میں بھی ایسے ہی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ اب تو سفر کرنا ایک طرح سے انتہائی خطرناک یا تشویش کا باعث بن گیا ہے ۔ جو لوگ ہندوستان ہی میں ایک سے دوسرے مقام کو سفر کر رہے ہیں انہیں بھی راستوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ ٹرینیں منسوخ ہو رہی ہیں۔ فضائی سفر بھی غیر یقینی ہوگیا ہے ۔ کب کونسی ٹرین یا پرواز منسوخ یا معطل ہوجائے کہا نہیں جاسکتا ۔ ایک سے دوسرے مقام کو سفر کرنے والوں کو بھی معائنوں اور ٹسٹوں سے گذرنا پڑ رہا ہے اور اس کو بھی لوگ منفی انداز میں دیکھ رہے ہیں۔ کسی مشکل کے بغیر اگر صحت عامہ اور حفظ ماتقدم کے طور پر کوئی ٹسٹ کروایا جاتا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ پرانی کہاوت بھی یہی ہے کہ علاج سے احتیاط بہتر ہے ۔ احتیاط کو اگر پوری مستعدی سے اختیار کیا جائے تو اس کے نتائج بھی مثبت نکل سکتے ہیں اور اس کا اثر صحت عامہ پر یقینی طور پر مرتب ہوسکتا ہے ۔ حکومتیں اور سرکاری ادارے اپنے طور پر جو کام کر رہے ہیں وہ اپنی جگہ ہیں اور رضاکارانہ تنظیموں کو بھی اس میں اپنا رول ادا کرنے کی ضرورت ہے اور عوام کو خود بھی اس کام میں اپنے پورے شعور کے ساتھ سرگرم رول ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔
جہاں تک حکومت کا سوال ہے صرف احتیاطی اقدامات کے ذریعہ اس صورتحال کو قابو میں کرنا ممکن نہیں ہوگا ۔ حکومت کویہ بات سمجھنی ہوگی کہ وہ جو اقدامات کر رہی ہے وہ ابتدائی مرحلہ میں یقینی طور پر ٹھیک ہیں لیکن سب سے زیادہ توجہ حکومت کو اس بات پر دینے کی ضرورت ہے کہ عوام میں کوئی خوف کی لہر نہ پیدا ہوجائے اور ان میں شعور بیدار کیا جانا چاہئے ۔ صرف احتیاط کی تشہیر کے ساتھ ساتھ شعور کی بیداری پر بھی حکومت کو توجہ دینا چاہئے اس سلسلہ میں حکومت اہم سیاسی و سماجی شخصیتوں اور سلیبریٹیرز کی خدمات حاصل کرسکتی ہے ۔ ایک سماجی کاز کیلئے سبھی گوشوں کو میدان میں آنے کی ضرورت ہے ۔ جو اقدامات کئے جا رہے ہیں ان کے موثر ہونے پر بھی توجہ کرنی چاہئے ‘۔ ایک با شعور سماج اور معاشرہ ہی کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال نمٹنے میں کامیاب ہوسکتا ہے ۔ خوف کے حاوی ہونے سے پہلے شعور کی بیداری پر سبھی گوشوں کو اپنی اپنی ذمہ داری پوری کرنے آگے آنا ہوگا ۔