’’کورونا‘‘ کا قہر یا آزمائش حیات‘‘

   

محمد نصیر الدین
’’کورونا وائرس‘‘ نے آج ساری دنیا میں قہر برپا کردیا ہے، انسانیت خوف و دہشت کا شکار ہے، حکمرانوں کی نیندیں غائب ہوچکی ہیں۔ ڈاکٹرس خود حیرت و تشویش کا شکار ہیں جگہ جگہ میڈیکل ایمرجنسی کا اعلان ہو رہا ہے۔ سفر پر تحدیدات عائد کردی گئی ہیں، مدارس اور تعلیمی اداروں کو بند کردیا گیا ہے۔ لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی لگادی گئی ہے۔ کورونا وائرس کے خوف میں ہر کوئی مبتلا ہے لگتا ہے کہ ’’کورونا‘‘ کوئی وائرس نہیں بلکہ موت کا فرشتہ ہے جو انسانوں کی روح نکالنے کی فراخ میں ہے چنانچہ کیفیت یہ ہے کہ کھانے پینے، ملنے ملانے، گھومنے پھرنے اور عیش و مستی کرنے سے بھی آدمی اجتناب کررہا ہے!! جو لوگ دنیا اور لذت دنیا کے اسیر ہیں ان کا عمل تو سمجھ میں آسکتا ہے لیکن ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کا ’’کورونا‘‘ کے خوف سے مساجد میں نمازوں پر پابندی کا اعلان انتہائی افسوسناک اور بدبختانہ ہے۔ یہ کیسے اہل ایمان ہیں جو خالق کائنات کی مشیت اور منشاء کو سمجھنے سے قاصر ہیں، یہ کیسے مسلمان ہیں جو موت کے خوف سے مساجد کو ویران کرنے پر تلے ہیں۔ یہ کیسے دعویداران ایمان ہیں جو باطل طاقتوں کی طرح موت کے ڈر سے عبادات میں رخنہ اندازی کرنے میں لگے ہیں۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ سائنس و ٹکنالوجی اور شعبہ طب میں بے مثال ترقی کے باوجود آج کا معاشرہ مختلف بیماریوں کو لیکر بے پناہ مصائب اور مشکلات سے دوچار ہے، چنانچہ کینسر، فالج، ایڈس، ڈینگو، سوائن فلو، چکن گنیا جیسی جان لیوا بیماریوں کے بعد ’’کورونا وائرس‘‘ نے ساری دنیا کو ڈر و خوف میں مبتلا کردیا ہے۔ معمولات حیات کو اتھل پتھل کردیا ہے، حتی کہ ہرکس و ناکس کی زبان پر کورونا وائرس ہی کا ذکر سننے میں آرہا ہے۔ دنیا کے مختلف نظریات اور فلسفوں کے برخلاف دین اسلام نے نہ صرف مرض و علاج کا فلسفہ واضح طور پر بیان کیا ہے بلکہ موت و حیات کی حقیقت کو بھی انسانوں کے سامنے واضح کیا ہے۔ ہندوستان کے مایہ ناز عالم دین مولانا سید جلال الدین عمری نے اس سلسلہ میں واضح نقطۂ نظر یوں بیان کیا ہے ’’زندگی اور اس کے مسائل کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر موجودہ نقطۂ نظر سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ وہ اس دعویٰ ہی کو تسلیم نہیں کرتا کہ انسان اس دنیا میں کسی بھی چیز کا حتیٰ کہ اپنی ذات کا مطلق مالک ہے اور اور وہ اس میں اپنی آزاد مرضی سے تصرف کرسکتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ پوری دنیا اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہے اور وہی اسے چلا رہا ہے۔ اس لئے وہی اس کا حقیقی مالک بھی ہے۔ اس دنیا میں انسان خود سے نہیں آیا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو وجود بخشا ہے اور اسی نے اس کے لئے یہاں سامان زیست فراہم کیا ہے۔ اس لئے وہی اس کی ذات پر مالکانہ اقتدار بھی رکھتا ہے۔ انسان اپنی ذات یا اپنے کسی اقدام کے بارے میں کوئی آزادانہ فیصلہ نہیں کرسکتا۔ ورنہ اس کی حیثیت اس مجرم کی ہوگی جو دوسرے کی چیزوں کو اپنی مرضی سے استعمال کرے اور ان کے بارے میں فیصلے صادر کرتا پھرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو یہ فیصلہ کرنے کا حق ہی نہیں ہے کہ اسے کب تک دنیا میں رہنا ہے اور کب یہاں سے کوچ کرنا ہے۔ جس نے زندگی دی ہے وہی فیصلہ کرے گا کہ زندگی کب واپس لے لی جائے گی‘‘۔ مرض سے متعلق اسلام کے نقطۂ نظر کو مولانا عمری نے یوں بیان کیا۔ ’’قرآن و حدیث کا سرسری مطالعہ یہ بھی بتاتا ہے کہ اسلام مرض کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل سے نجوبی واقف ہے اور اسے مریض سے پوری ہمدردی ہے۔ چنانچہ مریض کو خوشخبری دیتے ہوئے رسول رحمت ؐ نے فرمایا ’’مسلمان کو مستقل نوعیت کا کوئی مرض ہو کسی قسم کی تکان ہو کوئی فکر ملال تکلیف اور غم ہو یہاں تک کہ کوئی کانٹا اس کو چبھ جائے تو بھی اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کی غلطیوں پر پردہ ڈال دیتا ہے اور انہیں معاف کردیتا ہے‘‘ (بہ روایت حضرت ابوہریرہ ؓ) اسلام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اس دنیا میں انسان کو جو حیات مستعار ملی ہے وہ ایک امانت ہے۔ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس امانت کی حتی الامکان حفاظت کرے اور اسے ضائع ہونے سے بچائے۔ انسان چاہتا ہے کہ وہ ہمیشہ صحت مند اور تندرست رہے لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ اس دنیا میں صحت کے ساتھ مرض بھی لگاہوا ہے۔ صحت مند سے صحت مند آدمی بھی کبھی نہ کبھی مرض کا شکار ہو ہی جاتا ہے۔ بعض امراض تو اس قدر پیچیدہ اور تکلیف دہ شکل اختیار کرلیتے ہیں کہ آدمی کی قوت جواب دینے لگتی ہے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر و برداشت کا دامن تھامے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں خوشخبریوں سے نوازا ہے۔ ’’کورونا وائرس‘‘ کو لیکر محققین طب بھی حیران ہیں کہ آخر اس مرض کی وجہ کیا ہے اور کیسے یہ موت کا سبب بن رہا ہے؟ اس وائرس کو لیکر اس بات کی کوششیں ہو رہی ہیں کہ اس سے کیسے بچا جائے اور اس کو کیسے روکا جائے لیکن افسوس کہ ان ماہر محققین اور ان کے سرپرستوں کو کوئی یہ بتلانے والا نہیں ہے کہ اس وائرس کی وجہ پندرہ سو سال قبل محسن انسانیت ؐ نے واضح طور پر بتلادی تھی کہ اگر کسی قوم میں ’’زنا‘‘ علانیہ ہونے لگے تو انہیں ایسی ایسی بیماریاں لاحق ہوں گی جو پہلوں میں نہیں تھیں۔

کیا آج یہ پیشن گوئی حقیقت میں تبدیل نہیں ہوئی؟ جس فعل کو سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماریوں کا سبب قرار دیا تھا۔ آج وہ مغرب کا طرہ امتیاز ہے اور مغرب زدہ قوموں نے اس کو مستعار لیکر ساری دنیا میں قابل فخر بنا دیا ہے۔ اپنے نفس کی تسکین کے لئے اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے اور عیش و مستی کو جائز بنانے کے لئے ’’آزادیٔ نسواں‘‘ کا نعرہ بلند کیا گیا۔ حقوق نسواں کا مطالبہ کیا گیا پھر کیا تھا وائیٹ ہاوز میں آنے والہ ہر صدر اس شرمناک فعل میں ملوث پایا گیا۔ ٹورزم کی ترقی اور جدید کلچر کو بڑھاوا دینے کے لئے اس کو جائز قرار دے دیا گیا اور ہندوستان جیسی مملکت جہاں کی عوام مذہب اور اخلاق کے دلدادہ رہی ہے۔ تیزی سے مغربی کلچر کو فروغ دیا گیا۔ پھر ضرورت ’’نربھئے‘‘ ایکٹ بنانے کی پڑ گئی لیکن پھر بھی حکمراں جماعت کے نمایاں افراد اس فعل کے مرتکب پائے جانے لگے۔
دوسری چیز جو آج ساری انسانیت کو بالخصوص اہل ایمان کو بتائی جانی چاہئے کہ یہ سب بیماریاں اور آفات خود سے نہیں آتے بلکہ مشیت الٰہی کا مظہر ہوتے ہیں۔ ایک طرف اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان خوف ناک بیماریوں کی وجہ بیان فرمائی ہے تو دوسری طرف اہل ایمان کی ہمت افزائی کرتے ہوئے فرمایا ’’مومن مرد و عورت کو ان کی ذات اولاد اور مال کے سلسلہ میں آزمائش ہوتی رہتی ہیں اور اس کی وجہ سے ان کے گناہ معاف ہوتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس طرح ملتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ باقی نہیں رہتا‘‘۔ (رواہ ابوہریرۃ ؓ)

اہل ایمان کے لئے مزید ڈھارس بندھاتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے اسے تکلیف میں ڈالتا ہے‘‘۔ (رواہ حضرت ابوہریرۃ ؓ)
حیرت اور تعجب ہے کہ جس گروہ کے سردار صلی اللہ علیہ وسلم نے آفات، بیماریوں اور تکالیف کے سلسلہ میں اتنا واضخ تصور دیا ہے آج وہ ان سب سے غافل دیگر اقوام کی طرح خوف و دہشت میں مبتلا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ خوف و دہشت انہیں بیماری سے بچاسکے گی یا انہیں انجام کار سے محفوظ رکھ سکے گی؟ ایمان کی دولت سے محروم افراد کا خوف و دہشت میں مبتلا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، لیکن اہل ایمان کا بھی خوف و ہراس کا شکار ہونا تعجب خیز ہے۔ یہ کتنی بدنصیبی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح ہدایات ’’خوشخبریوں اور اجر و ثواب کے اعلان کے باوجود اہل ایمان دیگر اقوام کی طرح کورونا‘‘ سے بچنے اور بچانے کے بناوٹی کاموں میں مصروف ہیں۔ کاش اہل ایمان اور ساری انسانیت کو کوئی بتائے کہ ’’کورونا‘‘ سے بچنے اور بچانے کی واحد راہ ’’پلٹو اللہ کی طرف‘‘ ہے۔ کائنات سے مستفید ہونے میں انسانیت نے بے پناہ کوشش اور محنت کی، لیکن خالق کائنات کی مرضی سے انحراف کیا، خالق کائنات کے قانون کو نظرانداز کردیا۔ اتناہی نہیں خالق کائنات کے ’’کلام‘‘ کے خلاف یاوہ گوئی کی، اہل ایمان کو شریعت پر عمل کرنے سے منع کیا، خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی سے روکا گیا۔ حتی کہ نماز اور روزہ جیسی عبادات کی انجام دہی میں خلل اندازی کی گئی اور یہ خیال کیا گیا کہ ان کی من مانی کو کوئی نہیں روک سکے گا!!اہل ایمان کو اس موقع پر خود کا احتساب کرتے ہوئے رجوع الی اللہ کرنا چاہئے کیونکہ اہل ایمان زبان سے اقرار میں تو بہت آگے ہیں لیکن بدقسمتی سے عملی زندگی میں دین و شریعت بہت کم نظر آتی ہے۔ یقینا کسی بھی آفت و بیماری سے بچنے کی جو کچھ کوششیں ہوسکتی ہیں ضرور کرنی چاہئے جیسا کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی کہ ’’اللہ تعالیٰ سے دنیا اور آخرت میں عافیت طلب کرو‘‘۔ (رواہ حضرت انس ؓ)

اہل ایمان کو یہ جائزہ لینا چاہئے کہ جس ایمان کا وہ اقرار کرتے ہیں اور جس کے وہ دعویدار ہیں کیا ان کے اخلاق، ان کے معاملات، ان کے کاروبار، انکا رہن سہن، ان کی عبادات ان کے دعویٰ کے مطابق ہیں۔ اسی طرح جس دین کے وہ امین بنائے گئے ہیں کیا انہوں نے اہل وطن تک اس امانت کو پہنچایا ہے یا نہیں؟ ’’کورونا‘‘ کا ڈر و خوف ہوسکتا ہے کہ فطری ہو لیکن کیا بات ہے کہ قبر کا خوف اور دوزخ کے عذاب کا خوف نظروں سے اوجھل ہوچکا ہے !! موت تو ہر حال میں آنی ہے کورونا سے بھی آسکتی ہے اور کسی وجہ سے بھی آسکتی ہے لیکن موت کے بعد کی زندگی کی فکر کی گئی تو اہل ایمان کی زندگی سارے بھارت کے لئے باعث رحمت بن سکتی ہے اور اہل وطن بھی دامن رحمت میں داخل ہوسکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دین کے علمبردار اور علماء اس موقع پر اہل ایمان کو رجوع الی اللہ کی طرف متوجہ کریں اور ساتھ میں اہل وطن کو بھی بتائیں کہ۔ آفات و بلیات خالق کائنات کی بندگی سے دور ہوسکتی ہیں۔
اپنے تخلیق کے مقصد پہ کبھی غور کرو
پھر ذرا طرز عمل اپنا خدارا دیکھو